تعليمى اداروں کی آزادی اور فکری وسعت

تعليمى اداروں

علمی ادارے ہمیشہ سے انسانی تہذیب کے ارتقا میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے آئے ہیں، خواہ یہ ادارے مشرق کی سرزمین پر قائم ہوں یا مغرب کی علمی فضاؤں میں نشوونما پائیں، ان کی اساس ہمیشہ ایسے اصولوں پر رکھی گئی ہے جو انسان کو فکری آزادی، تنقیدی بصیرت اور تحقیق کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ یہ ادارے کسی ایک مسلک، مخصوص سیاسی نظریے یا محدود فکری رجحان کے پابند نہیں ہوتے، بلکہ ان کا وجود ہی اس لیے ہوتا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کے مابین مکالمے کی ایک ایسی فضا پیدا کی جا سکے جہاں اختلاف کو جرم نہیں بلکہ ترقی کی علامت سمجھا جائے۔ ان اداروں کی روح میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ علم محض معلومات کے انبار کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی مسلسل کوشش ہے جس میں سوال کرنے، سوچنے، اور سوچ کو نیا رخ دینے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشروں میں، بالخصوص برصغیر کے علمی حلقوں میں، یہ نظریاتی وسعت بہت حد تک مسخ ہو چکی ہے۔ مدارس ہوں یا دار العلوم، کئی علمی مراکز ایسے فکری تعصبات کا شکار نظر آتے ہیں جہاں فکر کی بجائے عقیدت، دلیل کی بجائے تقلید، اور مکالمے کی بجائے مفاہمت پر زور دیا جاتا ہے۔ بعض ادارے تو ایسے ہیں جو علمی نہیں بلکہ صرف مسلکی وفاداری کی نرسریاں بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے اداروں کے وابستگان سے جب کوئی علمی اختلاف کیا جائے، تو اسے بدعت یا گستاخی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ نہ دین اس رویے کی تائید کرتا ہے اور نہ عقل اس کی اجازت دیتی ہے۔ کسی شخص کا کسی ادارے سے وابستہ ہونا، یا کسی مخصوص عالم یا مفکر سے علمی استفادہ کرنا، اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ہر حال میں ان کے افکار کا اسیر ہو جائے یا تنقید سے اجتناب برتے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں علمی وابستگی کو شخصی یا جماعتی وابستگی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے علم کو ایک مخصوص لسانی، مسلکی یا گروہی شناخت کا پابند بنا دیا ہے، جس سے علمی فضا میں تعفن، تنگ نظری اور انجماد نے جنم لیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو محض اس بنیاد پر کسی نظریے کو رد کر دیتے ہیں کہ وہ "دوسرے” مکتب فکر سے منسلک ہے، چاہے اس میں معقولیت اور تحقیق کی کتنی ہی گہرائی کیوں نہ ہو۔ یہ طرزِ فکر علمی دیانت کے سراسر منافی ہے اور اس سے نہ صرف علم کی قدر گھٹتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔

یورپ میں تعلیم حاصل کرنے والے علامہ محمد اقبال اس طرزِ فکر کی روشن مثال ہیں جنہوں نے مغربی جامعات کے علمی و تحقیقی ماحول سے بھرپور استفادہ کیا، لیکن وہ مغرب کے فکری سانچوں کے اسیر نہ بنے۔ انہوں نے مغربی تہذیب، فلسفے اور اندازِ فکر کا عمیق مطالعہ کیا اور جہاں ضروری سمجھا وہاں بےباک تنقید بھی کی۔ ان کے ہاں علمی نکتہ نظر کبھی شخصیت پرستی میں تبدیل نہیں ہوا، بلکہ وہ ہمیشہ حق کی تلاش میں دلیل، مشاہدہ اور تجزیے کو بروئے کار لاتے رہے۔ یہی وصف ہر اس طالب علم میں ہونا چاہیے جو خود کو علم کا متلاشی سمجھتا ہے۔ تحقیق کا راستہ اسی وقت کھلتا ہے جب طالب علم اپنی سوچ کو آزاد رکھتا ہے اور ہر نظریے کو دلیل کی میزان میں تول کر پرکھتا ہے، نہ کہ وفاداری یا دشمنی کے چشمے سے۔

اسی طرح اگر کوئی طالب علم کسی حکومتی اسکالرشپ کے ذریعے تعلیم حاصل کرے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ اس حکومت کا نمائندہ یا وکیل ہے، سراسر غیر عقلی بات ہے۔ تعلیمی معاونت کا مقصد ہمیشہ علمی فروغ رہا ہے، نہ کہ فکری غلامی۔ علمی اداروں کو ایسے مقامات ہونا چاہیے جہاں ہر طالب علم اور محقق کو یہ اعتماد حاصل ہو کہ وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کہہ سکتا ہے، اور جہاں اس کی بات کو تعصب کے بجائے تنقید کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ فکری اختلاف کو اگر دشمنی یا گناہ سمجھا جائے تو علمی ترقی کا عمل رک جاتا ہے، اور معاشرہ علمی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔

ہمیں بحیثیتِ امت اس بات کا سنجیدگی سے ادراک کرنا ہو گا کہ علم اور تعصب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ تعصب علم کے دروازے بند کر دیتا ہے، ذہن کو مقفل کر دیتا ہے، اور انسان کو فکری غلامی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ تعصب ہی ہے جو آج ہمیں مسلکی خانوں میں بانٹ چکا ہے، علمی تنوع کو باہمی نفرت میں بدل چکا ہے، اور ایسی نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے چکا ہے جو ہماری علمی، سماجی اور دینی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔

لہٰذا وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ نئے فضلاء، طلبہ اور محققین ایک نئے فکری عزم کے ساتھ علمی جبر، تعصبات، اور غیر علمی وفاداریوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ انہیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ ہر فکری اختلاف الزام یا دشمنی نہیں بلکہ علمی ترقی کی طرف ایک قدم ہے۔ انہیں چاہیے کہ ہر مکتب فکر کے مفکرین کی تحریروں اور افکار کا مطالعہ کریں، مگر اس تنقیدی شعور کے ساتھ جو انہیں اندھی تقلید سے بچائے اور شعور کی بلندی تک لے جائے۔ جب علمی ادارے اس سوچ کے ساتھ چلنے لگیں گے، تبھی وہ حقیقی معنوں میں علم کے مراکز بنیں گے، اور تبھی ہم ایک ایسی علمی تہذیب کی طرف بڑھ سکیں گے جو تعصب سے پاک، مکالمے پر مبنی، اور فکری طور پر بیدار ہو۔

اسی یقین اور بصیرت کے ساتھ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ اب ہمیں علم کو محض روایت کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہے، اور تحقیق، تدبر، اور تنقید کو اپنا شعار بنانا ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو نہ صرف ہمارے علمی اداروں کو منور کرے گی بلکہ پوری امت کے فکری افق کو بھی روشن کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے