میں نے گذشتہ قسط میں عرض کیا تھا کہ بعض لوگ ایران اسرائیل جنگ کو فکسڈ میچ قرار دیتے ہیں گویا دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے شہریوں اور کھربوں ڈالر کی جائدادیں تباہ کرنے پر ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کے برعکس زبانی کلامی ”قول و قرار ”طے پایا ہو ! حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کا دعویٰ کرنے والے کوئی ثبوت یا دلیل پیش نہیں کرتے ہیں بس یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے دراصل اس طرح کی باتیں پھیلانے والے پروپیگنڈا باز حضرات کو شیعوں کے متعلق ہر وہ بات مسلکی منافرت کی آڑ میں پھیلانا ”ثواب” محسوس ہوتی ہے جس سے ایران کے اسرائیل یا امریکہ نواز ہونا ممکن ہو پائے ایسے نیک کام مذہبی سوچ رکھنے والے نام نہاد اسلام پسند جی جان لگا کر پھیلاتے ہیں ۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ آج سے پندرہ سال قبل چند ایک تصاویر سوشل میڈیا پر خاصی وائرل تھیں جن میں ایران کے اس وقت کے صدر محمد احمدی نجاد نے ایران میں منعقد ایک کانفرنس میں یہودیوں کو مدعو کیا تھا ان یہودیوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کے سر پر ہیٹ ہوتی ہے یہ داڑھی بہت لمبی رکھتے ہیں اور انھوں نے لمبے کو ٹ ( چغہ) پہن رکھے ہوتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ صہیونی یعنی نیتن یاھو وغیرہ حقیقی یہودی نہیں ہیں ان کی وجہ سے یہودیت بد نام ہو رہی ہے اس لئے کہ یہودی مذہب نہ ریاست قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے قتل عام کی ۔ یہ یہودی آج بھی اسرائیل میں اسرائیلی پولیس اور فوج کے ہاتھوں مار کھاتے ہیں خیر یہ ان کا آپسی اختلاف ہے ہمیں اسے کوئی غرض نہیں۔ مجھے عرض یہ کرنا ہے کہ ہمارے ہاں جب یہ تصاویر پہنچی تو ”ایک پروپیگنڈا بازٹولے ” نے انہیں سنی حضرات میں بطور ثبوت پوری قوت کے ساتھ پھیلانا شروع کردیا کہ یہ لو ”ایران اور شیعوں کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا ثبوت”۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم ایران اسرائیل کو ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ثابت کرنے کے لئے اتنے بے قرار کیوں رہتے ہیں اور تو اور ہم ان سنیوں کوبھی شیعہ ثابت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور کیوں لگاتے ہیں جو ”اتحاد بین المسلمین”کے لئے شیعہ سنی مسلکی اختلافات کو قدرے کم اہمیت دیتے ہیں ؟ اس کی کوئی وجہ سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے کہ شیعوں اور سنیوں میں ایسے تکفیری مکاتب فکر وجود میں آچکے ہیں جو ایک دوسرے کی نفرت میں مشرکین کو ترجیح دینے سے بھی نہیں گریز نہیں کرتے ہیں اُن شیعوں اور سنیوں کے لئے ایک دوسرے کا وجود ناقابل برداشت بن چکا ہے مگر خود یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے محبت میں یہ لوگ کبھی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں ؟

اس کے اسباب بے شمار ہیں مگر خاص وجہ یہ کہ "عثمانی خلافت” کے خاتمے کےسا تھ ساتھ اکثر "مسلم شیعہ سنی مکاتب فکر” میں رافضیت ، خارجیت اور ناصبیت کے جراثیم سے متاثر علماء اور دانشوروں کا غلبہ ہوا اور المیہ یہ کہ ان مکاتب فکر نے عالمی سطح پر اپنے اثرات مرتب کئے ۔ جس سے شعیہ سنی مسلمانوں کے ہاں پہلے سے موجود نفرت عروج پر پہنچی۔ ایک اور مصیبت یہ پیدا ہوئی کہ ان مکاتب فکر نے مختلف عسکری تنظیمیں کو وجود میں لاکر ”عالم اسلام ”میں قیامت برپا کردی جتنے مسلمانوں کو غیر مسلموں نے مارا اسے دس گنا زیادہ خود ان مسلمان عسکریت پسندوں نے قتل کردیا اور ہر مقام پر اس قتل عام کو ”جھاد”قرار دیا گیا ۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سنیوں اور شیعوں کے بیچ بہت سخت قسم کے اختلافات ہیں اور خاص کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مسئلے پر اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ شیعوں میں بعض لوگ صحابہ کی توہین و تحقیر کرتے ہیں جو ہم سنیوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جرم ہر شیعہ کرتا ہے اور کیا یہ ہر شیعہ کا عقیدہ ہے ؟ میں اس کا جواب اپنی طرف سے دینے کے بجائے مولانا تقی عثمانی صاحب کے اسی مسئلے پر دئے گئے فتوے کے ایک اقتباس کو پیش کرکے دینا مناسب سمھجتا ہوں مولانا لکھتے ہیں علی الاطلاق تمام شیعوں کی تکفیر درست نہیں ہے کیونکہ عقیدے کے لحاظ سے شیعوں کی مختلف قسمیں ہیں ان میں جو شیعہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں مثلاََ قران کریم میں تحریف کے قائل ہوں یا یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی یا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر تہمت لگاتے ہوں یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو معبود مانتے ہوں ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن یہ بات کہ تمام شیعہ یہ یا اس قسم کے کافرانہ عقائد رکھتے ہیں تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی اور کئی شیعہ یہ کہتے ہیں کہ الکافی یا اصول الکافی وغیرہ میں جتنی باتیں لکھی ہیں ہم ان سب کو درست نہیں سمجھتے ہیں دوسری طرف کسی کو کافر قرار دینا چونکہ نہایت سنگین معاملہ ہے اس لیے اس میں بے حد احتیاط ضروری ہے اگر بالفرض کوئی تقیہ بھی کرے تو وہ اپنی باطنی عقائد کی وجہ سے عنداللہ کافر ہوگا لیکن فتوی ظاہری اقوال پر ہی دیا جائے گا۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جو انتہا پسند اور غالی قسم کے شیعہ صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں دورِ حاضر کے دو بڑے شیعہ عالموں آیت اللہ سید علی خامنائی اور آیت اللہ سید علی سیستانی کے علاوہ اکثر شیعہ علماء نے ان کے خلاف فتویٰ دیکر انہیں غیروں کے آلہ کار قرار دیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یاسر الحبیب جیسا لعنتی برطانیہ کی سرپرستی میں اس شیعہ سنی فساد کو پھیلانے میں پیش پیش ہے جبکہ دوسری جانب سنیوں میں بھی ایسے بدبخت اور خبیث پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت علی حضرت حسن و حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے خلاف زبانیں دراز کیں اور ہر سطح پر اہل بیت کے موقف کو غلط ثابت کر نے کے لئے یزید کی ثنا خوانی شروع کردی اور یہ دونوں طریقے غلط اور تنگ نظری پر مبنی ہیں۔
(جاری)
(الطاف حسین ندوی وادی کشمیر کے معروف قلمکار،صحافی ،دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ہمارے شدید اصرار پر انھوں نے طویل مدت بعد پھر سے لکھنا شروع کردیا ہے امید ہے آپ کو ہماری یہ کوشش بہت فائدہ مند محسوس ہوگی اور آپ اپنے آراء سے ہمیں نوازیں گے شکریہ )
ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
ایک نظر ان خبروں پر بھی ڈالیے
تعليمى اداروں کی آزادی اور فکری وسعت
ایران میں آئی اسرائیلی جاسوسوں کی شامت 3 کو پھانسی اور 700 گرفتار
عائشہ قذافی کا ایرانی عوام کے نام انتہائی جذباتی پیغام ! ایران والو جھکنا نہیں