ان دنوں مشرق وسطیٰ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک جذباتی اور اثر انگیز پیغام تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ یہ پیغام لیبیا کے سابق مقتول صدر معمر قذافی کی بیٹی عائشہ قذافی کی جانب سے ایرانی عوام کے نام کھلے خط کی شکل میں سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف مغربی طاقتوں پر سخت تنقید کی ہے بلکہ ایرانی قوم کو صبر، اتحاد اور مزاحمت کا پیغام بھی دیا ہے۔
یہ خط ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب ایران کو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شدید حملوں کا سامنا ہے، اور خطے میں بے یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین، خاص طور پر ایرانی نوجوان، اس پیغام کو "سچ کی گونج” اور "ماضی کے سبق” کے طور پر شیئر کر رہے ہیں۔
دھوکہ دہی کا ذاتی تجربہ
عائشہ قذافی نے اپنے پیغام میں لکھا:
"میں ایک ایسی عورت کی آواز ہوں جس نے اپنے وطن کی موت دیکھی — وہ بھی نہ کھلے دشمنوں کے ہاتھوں، بلکہ مغرب کی مسکراہٹوں اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے ان کے والد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنے جوہری اور میزائل پروگرام ترک کر دیں، تو دنیا ان کیلئے کھل جائے گی۔ لیکن ان وعدوں کا نتیجہ لیبیا کی مکمل تباہی، نیٹو کی بمباری، عوام کی غلامی اور بدترین خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آیا۔
ایرانی عوام سے اپیل
عائشہ نے ایرانیوں سے مخاطب ہو کر کہا:
"اے عظیم ایرانی قوم! مغرب کے جھوٹے وعدوں سے خبردار رہو۔ ان کے میٹھے الفاظ صرف دھوکہ ہیں۔ ہم نے ان پر بھروسہ کیا اور تباہی پائی۔”
انہوں نے زور دیا کہ ایران کو کیوبا، وینزویلا، شمالی کوریا اور فلسطین جیسے ممالک کی طرح اپنی مزاحمت برقرار رکھنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ "بھیڑیے سے بات کرنا بکری کو نہیں بچاتا، یہ صرف اس کے اگلے شکار کا وقت طے کرتا ہے۔”
پیغام کی وائرل مقبولیت
یہ پیغام ایک صارف علیو عبدالعلی بامئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایرانی اور عرب پلیٹ فارمز پر وائرل ہو گیا۔ فارسی ٹیلی گرام چینلز، ایکس (ٹوئٹر) اور دیگر پلیٹ فارمز پر یہ خط جذباتی انداز میں بار بار شیئر کیا جا رہا ہے۔
کئی ایرانی صارفین اس پیغام کو "ہمدردی کی صداقت”، "سیاسی بیداری” اور "مغربی فریب کاری کے خلاف اندرونی آواز” قرار دے رہے ہیں۔
ایک انتباہ، ایک مشورہ
خط کے اختتام پر عائشہ قذافی نے ایرانی عوام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا:
"صبر کرو، ثابت قدم رہو۔ سمجھوتہ تباہی لاتا ہے۔ جو جھک گئے، وہ مٹ گئے — جو ڈٹے رہے، وہ تاریخ بنے۔”
نتیجہ
عائشہ قذافی کا یہ خط نہ صرف ایک جذباتی بیان ہے بلکہ ایک تاریخی انتباہ بھی ہے۔ لیبیا کے زخموں سے جنم لینے والی یہ آواز ایران کے موجودہ بحران میں ایک آئینہ بن کر سامنے آئی ہے، جو مغرب کے ساتھ غیر مشروط مفاہمت کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتی ہے۔
یہ پیغام اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی سانحات صرف ممالک کو نہیں بلکہ خاندانوں کو بھی اندر سے توڑ دیتے ہیں۔ اور جب ایسے زخم بولتے ہیں، تو وہ صرف جذباتی نہیں بلکہ سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔
ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں