اردن میں اخوان المسلمین نے پابندی کے بعد خود کو تحلیل کردیا تحریک پر پابندی کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے

اخوان المسلمین

اردن کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اور اسلامی تحریک کی علمبردار، اخوان المسلمین نے حکومتی پابندیوں اور اثاثوں کی ضبطگی کے بعد خود کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب اردنی حکومت نے گزشتہ چند ماہ میں جماعت پر تشدد، تخریب کاری اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات لگائے، اس کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا، دفاتر بند کر دیے، اور مالی وسائل منجمد کر دیے۔ یہ اقدام اخوان المسلمون کے لیے ناگزیر تھا، جو نہ صرف جماعت بلکہ اردن کے سیاسی تنوع اور جمہوری ڈھانچے کے لیے بھی ایک بھاری دھچکا ہے۔

اخوان کی تحلیل اس کے سیاسی ونگ، اسلامی ایکشن فرنٹ (IAF) کی حالیہ پارلیمانی کامیابیوں کے تناظر میں خاص طور پر افسوسناک ہے۔ تازہ انتخابات میں IAF نے 138 میں سے 31 نشستیں حاصل کیں، جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوامی جذبات کی مؤثر ترجمانی کی بدولت تھی۔ مگر حکومت نے اسے "قومی سلامتی” کے تحفظ کے نام پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا، جبکہ اخوان نے ان الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی بدلہ قرار دیا۔

یہ واقعہ اردن کی سیاست میں ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اخوان پر پابندی کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے دباؤ سے جوڑا جا رہا ہے، جو اسلامی تحریکوں کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے جمہوریت اور آزادیٔ رائے پر حملہ قرار دیا، جبکہ مغربی ممالک نے بھی اس کی مذمت کی۔

اخوان کی تحلیل سے اردن کی سیاسی فضا میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے فی الحال کوئی دوسری قوت پر نہیں کر سکی۔ یہ اقدام نہ صرف اردن بلکہ پورے خطے میں اسلام پسند تحریکوں کے مستقبل کے لیے خطرناک مثال بن سکتا ہے۔ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے والی ایک اہم قوت کے خاتمے سے خطے کے تنازعات میں نئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ اخوان کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے یہ ایک کرب ناک لمحہ ہے، جبکہ اردنی حکومت کے اس فیصلے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

انڈیاپاکستان جنگ میں 5 طیارے مار گرانے کے ٹرمپ کے دعویٰ نے مودی کو مشکل میں ڈالدیا

ایتھوپیا، انڈونیشیا اور لیبیا نے غزہ فلسطینیوں کو نکالنے کی صورت میں قبول کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی ہے

فلسطینی صدر محمود عباس کاٹونی بلیئر سے ملاقات،حماس غزہ پر حکومت نہیں کرے گی اور ہتھیار بھی ہمارے حوالے کریں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے