ڈاکٹر عافیہ صدیقی نیورو سائندان سے امریکی قید خانے تک انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب

ڈاکٹر عافیہ صدیقی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی ایک ایسی عالمی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے جو اپنی علمی صلاحیتوں اور نیورو سائنس کے میدان میں نمایاں کامیابیوں سے لے کر امریکی قید خانوں کی تاریک دنیا تک ایک تکلیف دہ سفر سے گزری۔ ان کا کیس نہ صرف ایک انفرادی المیہ ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی، قانونی عمل کی شفافیت کی کمی، اور بین الاقوامی سیاست کے پیچیدہ جال کا ایک عظیم عکاس بھی ہے۔ عافیہ صدیقی کی زندگی، ان کی گرفتاری، مقدمے، اور امریکی جیل میں قید نے انسانی تاریخ کے ایک سیاہ باب کو جنم دیا، جو انصاف، شفافیت، اور انسانی وقار کے تقاضوں پر سوالات اٹھاتا ہے۔ یہ مضمون عافیہ صدیقی کے سفر، ان کے کیس کے تنازعات، اور اس کے عالمی اثرات کا جائزہ پیش کرتا ہے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک پاکستانی نیورو سائنسدان ہیں جن کا کیس عالمی سطح پر متنازعہ اور جذباتی بحث کا موضوع رہا ہے۔ ان کی زندگی، تعلیم، گرفتاری، مقدمے، اور امریکی جیل میں قید نے انسانی حقوق، انصاف، اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ مضمون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی، ان کے مقدمے کی تفصیلات، اور اس کیس کے وسیع تر اثرات کا جائزہ پیش کرتا ہے، جبکہ بین الاقوامی ماہرین قانون کے تحفظات اور اسحاق ڈار کے حالیہ بیان پر تنقید کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تعلیم یافتہ اور مذہبی پس منظر رکھتا تھا، اور ان کے والدین اسلامی اقدار پر کاربند تھے۔ عافیہ نے اپنی ابتدائی تعلیم زیمبیا اور کراچی میں مکمل کی۔ 1990ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے بھائی کے پاس ٹیکساس، امریکہ چلی گئیں۔ انہوں نے ہوسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعد میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) سے بیالوجی میں بی ایس اور برینڈیز یونیورسٹی سے 2001ء میں نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیمی کامیابیوں نے انہیں ایک ذہین اور قابل سائنسدان کے طور پر شناخت دی۔

عافیہ کی شادی 1995ء میں ڈاکٹر امجد محمد خان سے ہوئی، جن سے ان کے تین بچے، احمد (1996ء)، مریم (1998ء)، اور سلیمان (2002ء) پیدا ہوئے۔ تاہم، 2002ء میں ان کی شادی طلاق پر ختم ہوگئی، مبینہ طور پر عافیہ کے شدت پسندانہ خیالات اور امجد کے ساتھ نظریاتی اختلافات کی وجہ سے۔

گرفتاری اور لاپتہ ہونا

2003ء میں عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے راولپنڈی کے لیے ہوائی اڈے جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئیں۔ ان کی عمر اس وقت 30 سال تھی، جبکہ ان کے بچوں کی عمریں چار سال سے ایک ماہ تک تھیں۔ مقامی اخبارات نے ان کی گرفتاری کی خبریں شائع کیں، لیکن پاکستانی حکام نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ بعد میں الزامات سامنے آئے کہ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عافیہ کو امریکی حکام کے حوالے کیا گیا۔

2008ء تک عافیہ کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات نہیں تھیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور عالمی اداروں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عرصے میں افغانستان کی بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 کے طور پر قید تھیں، جہاں انہیں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی صحافی یون ریڈلے نے اس دعوے کو عالمی میڈیا میں اجاگر کیا۔ تاہم، امریکی حکام نے 2008ء سے قبل عافیہ کی حراست سے متعلق کسی بھی معلومات سے انکار کیا۔

2008ء میں امریکی حکام نے اعلان کیا کہ عافیہ کو 17 جولائی 2008ء کو افغانستان کے صوبے غزنی سے گرفتار کیا گیا اور نیویارک منتقل کیا گیا، جہاں ان پر دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کیے گئے۔ گرفتاری کے دوران ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام لگایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئیں۔ امریکی فوجی معالجین نے ان کی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر 3 (یعنی موت کے قریب) قرار دیا۔

مقدمہ اور سزا

2010ء میں نیویارک کی ایک وفاقی عدالت نے عافیہ صدیقی کو امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہلکاروں پر حملے کے الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی۔ امریکی محکمہ انصاف نے انہیں "القاعدہ کی رکن اور سہولت کار” قرار دیا۔ الزامات کے مطابق، عافیہ نے 2008ء میں غزنی میں ایک امریکی فوجی کی رائفل اٹھا کر فائرنگ کی کوشش کی تھی۔ تاہم، انہوں نے تمام الزامات سے انکار کیا۔

بین الاقوامی ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس مقدمے کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، مقدمے میں شفافیت کی کمی تھی، ثبوت کمزور تھے، اور عافیہ کی ذہنی حالت ٹرائل کے دوران مناسب نہیں تھی۔ متعدد سائیکالوجسٹس نے ان کی نفسیاتی حالت کو مشکوک قرار دیا، لیکن عدالت نے انہیں ٹرائل کے لیے فٹ قرار دیا۔ مزید برآں، عافیہ کی گرفتاری سے قبل مبینہ خفیہ حراست، تشدد، اور غیر قانونی سلوک کے الزامات نے مقدمے کی قانونی حیثیت کو مزید متنازع بنایا۔

گوانتانامو بے سے لیک ہونے والی فائلوں کے مطابق، عافیہ پر القاعدہ کے لیے دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے اور بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کی پیشکش کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ تاہم، ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی، اور امکان ظاہر کیا گیا کہ یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے۔

عافیہ کے مقدمے نے عالمی سطح پر تنقید کی لہر کو جنم دیا۔ بین الاقوامی ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے غیر منصفانہ قرار دیا۔ مقدمے میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی، جن میں شامل ہیں:

  1. شفافیت کی کمی: مقدمے کے دوران پیش کیے گئے ثبوت کمزور اور متنازع تھے۔ مثال کے طور پر، امریکی فوجیوں نے دعویٰ کیا کہ عافیہ نے ان پر فائرنگ کی کوشش کی، لیکن کوئی گولی نہیں چلی، اور رائفل پر ان کے فنگر پرنٹس کے ثبوت واضح نہیں تھے۔
  2. نفسیاتی حالت: عافیہ کی ذہنی حالت ٹرائل کے دوران مشکوک تھی۔ کئی سائیکالوجسٹس نے انہیں نفسیاتی دباؤ کا شکار قرار دیا، لیکن عدالت نے انہیں ٹرائل کے لیے فٹ قرار دیا۔
  3. خفیہ حراست کے الزامات: عافیہ کی 2003ء سے 2008ء تک مبینہ خفیہ حراست اور تشدد کے الزامات کو عدالت میں مناسب طور پر زیر بحث نہیں لایا گیا، جو انصاف کے تقاضوں کے منافی تھا۔

گوانتانامو بے سے لیک ہونے والی فائلوں نے عافیہ پر القاعدہ کے لیے دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے اور بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کی پیشکش کے الزامات عائد کیے۔ تاہم، ان معلومات کی آزاد تصدیق نہ ہونے اور تشدد کے ذریعے بیانات حاصل کرنے کے امکانات نے ان الزامات کی قانونی حیثیت کو مزید کمزور کیا۔

جیل میں حالات اور انسانی حقوق

عافیہ صدیقی فی الحال ٹیکساس کے فورٹ ورتھ میں واقع فیڈرل میڈیکل سینٹر کارسویل میں قید ہیں۔ ان کی صحت کے بارے میں رپورٹس تشویشناک ہیں۔ 2023ء میں ان کی بہن، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، سے 20 سال بعد ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ عافیہ کی جسمانی اور ذہنی حالت خراب ہے۔ ان کے سامنے کے دانت ٹوٹ چکے ہیں، سر کی چوٹ کی وجہ سے سماعت متاثر ہوئی ہے، اور وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ ملاقات کے دوران انہیں شیشے کی دیوار کی وجہ سے گلے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور انہیں اپنے بچوں کی تصاویر دکھانے کی بھی ممانعت تھی۔

انسانی حقوق کے وکیل کلائیو سٹیفرڈ سمتھ نے دعویٰ کیا کہ عافیہ 2003ء سے 2008ء تک بگرام کی خفیہ جیل میں قید تھیں، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اسحاق ڈار کا بیان اور تنقید

حال ہی میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک بیان میں کہا کہ ہر چیز کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور اگر عافیہ صدیقی کو قانون کے مطابق سزا ہوئی تو اس پر تنقید غلط ہوگی۔ یہ بیان کئی وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ سب سے پہلے، یہ بین الاقوامی ماہرین قانون کے اس مقدمے پر تحفظات کو نظر انداز کرتا ہے۔ مقدمے کی شفافیت، ثبوتوں کی کمزوری، اور عافیہ کی مبینہ خفیہ حراست کے الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے، قانونی عمل کا احترام کرنے کی بات غیر حساس اور غیر حقیقت پسندانہ لگتی ہے۔

دوسری طرف، اسحاق ڈار کا عمران خان سے متعلق سوال کے جواب میں عافیہ صدیقی کا ذکر کرنا غیر متعلقہ اور توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان کے سیاسی یا قانونی معاملات کا عافیہ کے کیس سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ یہ رویہ سیاسی مکالمے کی سنجیدگی کو کمزور کرتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصل سوال کا جواب دینے سے گریز کر رہے تھے۔ اس طرح کا غیر متعلقہ جوڑ حساس موضوعات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کا مظہر ہے۔

عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوششیں

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان میں کئی برسوں سے تحریک چل رہی ہے، جس کی قیادت ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ 2023ء میں ڈاکٹر فوزیہ نے امریکی حکام کے ساتھ سزا معافی کی درخواست پر کام کیا، لیکن اسے حکومتی سطح پر پیش کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

امریکی وکیل کلائیو سٹیفرڈ سمتھ نے تجویز پیش کی کہ عافیہ کی رہائی یا پاکستان منتقلی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ممکن ہے، جیسے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے۔ تاہم، پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ معاہدوں کی کمی اس عمل کو مشکل بناتی ہے۔

2024ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ کے کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا، جو اس کیس کی اہمیت اور حکومتی سطح پر غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔

عالمی تناظر اور اثرات

عافیہ صدیقی کا کیس صرف ایک انفرادی مقدمہ نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک علامت بن چکا ہے۔ ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ وہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی شکار ہیں اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ MIT کے پروفیسر نوم چومسکی نے اس کیس کو امریکی پالیسیوں کی عکاسی کرنے والا ایک شرمناک باب قرار دیا۔

دوسری طرف، امریکی حکام اور گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل معلومات عافیہ کو القاعدہ سے منسلک کرتی ہیں، لیکن ان معلومات کی مصدقہ آزاد تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے یہ الزامات متنازع ہیں۔

نتیجہ

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایک پیچیدہ اور جذباتی معاملہ ہے جو قانونی، سیاسی، اور انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کی تعلیمی کامیابیوں سے لے کر متنازع گرفتاری اور سزا تک، ان کی کہانی نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ اسحاق ڈار کا حالیہ بیان اس کیس کی حساسیت کو نظر انداز کرتا ہے اور غیر متعلقہ جوابات سے سیاسی مکالمے کو کمزور کرتا ہے۔ عافیہ کی رہائی کے لیے جاری کوششیں، بشمول ان کی بہن کی تحریک اور قانونی اقدامات، اس امید کو زندہ رکھتی ہیں کہ انصاف ممکن ہے۔ تاہم، اس کیس کا حل پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعاون اور عالمی دباؤ پر منحصر ہے۔

عافیہ صدیقی کی کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک عظیم سوال ہے جو انسانی حقوق اور انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ایک تعلیم یافتہ خاتون، جو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کی بدولت عالمی سطح پر شناخت رکھتی تھی، واقعی ایک دہشت گرد تھی، یا وہ عالمی سیاست اور طاقت کے کھیل کی شکار ہوئی؟ یہ سوال وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے