ایک طویل انسانی بحران، شدید بمباری، اور عالمی سطح پر عوامی و سفارتی دباؤ کے نتیجے میں آخرکار غزہ کے لیے امید کی ایک کرن روشن ہوئی۔ مصر سے امدادی سامان لے کر متعدد ٹرک رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان ٹرکوں میں خوراک، پانی، اور بنیادی انفراسٹرکچر کی اشیاء شامل ہیں جو غزہ کے جنگ زدہ اور محصور عوام کے لیے زندگی کی سانس جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں شدید احتجاج اور مطالبات
گزشتہ کئی ہفتوں سے دنیا بھر کے عوام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر لگائی گئی مکمل ناکہ بندی اور امداد کی بندش کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی تھیں۔ لندن، نیویارک، ہیلسنکی، کوپن ہیگن، دی ہیگ، ہیمبرگ، اور بیروت سمیت دنیا کے درجنوں بڑے شہروں میں لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے۔ اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین نے غزہ میں جاری نسل کشی، خوراک کی قلت اور دوا کی کمی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
تل ابیب میں بھی سینکڑوں اسرائیلی شہری امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ غزہ میں جنگ فوری روکی جائے اور امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔ مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: "بھوک کو ہتھیار بنانا جنگی جرم ہے” اور "غزہ اکیلا نہیں ہے۔”
مصری و اماراتی تعاون، مگر تفصیلات مبہم
مصری میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، امدادی سامان مصر اور متحدہ عرب امارات کی مشترکہ کوششوں سے غزہ تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ٹرکوں کی صحیح تعداد یا آئندہ امدادی کھیپ کی تاریخ کے بارے میں مصری ہلال احمر یا دیگر متعلقہ اداروں نے کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا، لیکن ابتدائی قافلے کی آمد غزہ کے عوام کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
اسرائیلی فوج کا محدود جنگ بندی کا اعلان
اسرائیل، جو غزہ میں امداد کی بندش کو ‘جنگی حکمتِ عملی’ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے، عالمی دباؤ کے سامنے وقتی طور پر جھک گیا۔ اس نے کچھ مخصوص علاقوں میں 10 گھنٹے کے "آپریشنل وقفے” کا اعلان کیا تاکہ امدادی ٹرک رفح کراسنگ کے راستے غزہ میں داخل ہو سکیں۔ اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے "محفوظ راہداری راستے” قائم کرے گی جہاں اقوام متحدہ کے امدادی قافلے غزہ کے اندر شہریوں تک خوراک اور ادویات پہنچا سکیں۔
رفح کراسنگ کی اہمیت
رفح کراسنگ غزہ کا واحد بین الاقوامی زمینی راستہ ہے جو اسرائیل کے بجائے کسی اور ملک یعنی مصر کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ یہ سرحدی پوائنٹ غزہ کے باسیوں کے لیے دنیا سے رابطے کا واحد راستہ ہے اور اس کا کھلنا یا بند ہونا غزہ کی انسانی صورتحال پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں اسرائیلی بمباری کے دوران یہ کراسنگ مکمل بند رہی، جس کے باعث لاکھوں افراد کو بھوک، پیاس اور بیماریوں کا سامنا رہا۔
ہلاکتوں اور تباہی کی خوفناک تصویر
اب تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 59 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، اسپتالوں میں ادویات اور بجلی کی قلت ہے، جب کہ خوراک کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں امدادی ٹرکوں کی آمد وقتی راحت ضرور ہے، مگر مسئلے کا مستقل حل جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی معاہدہ ہی ہو سکتا ہے۔
عالمی برادری کا امتحان باقی ہے
اگرچہ ابتدائی امداد کی ترسیل شروع ہو گئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری صرف وقتی دباؤ ڈال کر پیچھے ہٹ جائے گی یا غزہ میں ایک مستقل اور پائیدار حل کے لیے اقدامات کرے گی؟ اسرائیل کی طرف سے امداد کی بندش کو ہتھیار بنانے کے عمل کو روکنے، رفح کراسنگ کو مکمل طور پر کھلا رکھنے، اور جنگ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں امداد کی شفاف تقسیم کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔