ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سرنڈر کرنے کے دھمکی نما مطالبے پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے ایران کبھی سرنڈر نہیں کرے گا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران نے غیر مشروط طور پر ہتھیار نہ ڈالے تو ایرانی سپریم لیڈ رکو قتل کیا جا سکتا ہے۔ جس کے جواب میں سپریم لیڈر نے کہا ہے ‘اگر امریکہ نے اپنے اتحادی کی مدد کے لیے کوئی مداخلت کی تو اسے ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔’
ایرانی سپریم لیڈر نے اس امر کا اظہار ایران اسرائیل جنگ کے چھٹے روز اپنے ایک خطاب میں کیا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر کی گئی اپنی تقریر میں خامنہ ای نے کہا ‘ ہماری قوم کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ ‘ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے الٹی میٹم کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ‘ امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی فوجی مداخلت کا بلاشبہ اسے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔’
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای 1989 سے اقتدار میں ہیں اور ایران میں ریاست کے تمام معاملات کے حتمی نگران ہیں۔
انہوں نے اس سے قبل دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں کرے گا۔’
اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے یہ تقریر جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے ایک رات کے بعد کی ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تہران کے قریب ایران کے جوہری پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کے اجزاء بنانے والی دو عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اس بارے میں کہا ہے اسرائیلی فضائیہ کے 50 سے زیادہ لڑاکا طیاروں نے گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران تہران کے علاقے میں مسلسل حملے کر کے ہتھیار بنانے والی متعدد تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ اسرائیلی حملے ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام میں خلل ڈالنے کی وسیع کوششوں کا ایک حصہ تھے۔ اس لیے تہران میں سینٹری فیوجز کی پیداوار کی سہولت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
خیال رہے سینٹری فیوجز کی اہمیت یورینیم کی افزودگی کے لیے انتہائی زیادہ ہے۔ یہ انتہائی حساس نوعیت کا عمل جوہری ری ایکٹرز کے لیے ایندھن پیدا کر سکتا ہے۔ نیز یورینیم کی افزودگی ممکن بناتا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے کہا کہ اسرائیل نے تہران کے شہر کرج میں بھی حملے کر کے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کے اجزاء بنانے والے دو مراکز تباہ کر دیے ہیں۔
‘ آئی اے ای اے ‘ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ ایکس’ پر ایک پوسٹ میں مزید کہا کہ تہران میں ایک سائٹ پر ایک اور حملہ کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا جہاں جدید سینٹری فیوج روٹرز تیار اور ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
ایران پاسداران انقلاب کور کے مطابق’ تل ابیب پر ہائپر سونک الفتح-1 میزائل داغے گئے ہیں۔ یہ ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا سے بھی تیز رفتاری سے رفتاری سے سفر کرتے ہیں اور پرواز کے دوران پینترہ بھی بدل سکتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں ٹریک کرنا اور روکنا کسی بھی دفاعی نظام کے لیے مشکل ہوتر جاتا ہے۔’
دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ رات کو تل ابیب پر کوئی میزائل نہیں گرا ہے۔ جبکہ خبر رساں ادارے ‘ اے ایف پی’ کی جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام تل ابیب پر میزائلوں کو روکنے کے لیے متحرک ہیں۔
ایران کی طرف سے کہا گیا ہے اس نے اسرائیل کی طرف ڈرونز طیاروں کا دستہ روانہ کیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے ایران سے داغے گئے کل 10 ڈرونز کو روک لیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے جی سیون کے اجلاس میں ان افواہوں کو مزید بھڑکایا جو ایران پر اسرائیلی حملے میں امریکہ کے براہ راست شریک ہونے سے متعلق چل رہی ہیں۔ جی سیون کے سربراہان نے ایک طرف اپنے اجلاس میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کہا اور دوسری جانب اسرائیلی جارحانہ حملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ‘ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔’
اسی اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا ‘ امریکہ آسانی سے ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کر سکتا ہے۔’ ٹرمپ کا اپنے ‘ ٹروتھ سوشل’ پر کہنا تھا ہم جانتے ہیں کہ نام نہاد سپریم لیڈر کہاں چھپا ہوا ہے۔ وہ ایک آسان ہدف ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ وہاں اس لیے محفوط ہے ابھی ہم اسے قتل کرنے نہیں جارہے ہیں۔’
جی سیون اجلاس سے واپسی پر ٹرمپ نے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی ۔
تاہم فوری طور پر ایسی کچھ اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں کہ اجلاس میں ایران کے خلاف جنگ میں شرکت بارے کیا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی حکام کا اصرار ہے کہ صدر ٹرمپ نے ابھی ایران کے خلاف جنگ کا براہ راست حصہ بننے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔