جنگِ غزہ کی پشت پر ، انتقامی جِبِلّت اور مشرق وسطی پر تسلط کا نشّہ حاوی ہے

ڈاکٹر خورشید عالم ندوی بھوپال

اسرائیل ، ایران پر حملہ کی حماقت کر بیٹھا ، پورا ایران تکبیروں سے اور حیدر ـ حیدر ، خیبرـ خیبر کے نعروں سے گونج رہا ہے ، ایران نے بھی ایسا زبردست پلٹ وار کیا جو اسرائیل کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ، اس طرح ایران کا "سچا وعدہ ، نمبر تین ” اسرائیل پر وعید بن کر برس رہا ہے جس نے اسے اپنے وجود اور زندگی کی جنگ لڑنے پر مجبور کردیا ۔ یہ خبر اب public domain میں بھی گردش کر رہی ہے کہ ایران نے اسرائیل کے تین امریکی ایف 35 جیٹس کو بھی مار گرایا ہے ، اس خبر سے اسرائیل میں عسکری بھونچال اور امریکہ میں "فضائی” زلزلہ آگیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اِس خبر کی تردید کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چودہ جون کی رات ، اسرائیلی تاریخ میں شبِ دیجور کے نام سے یاد کی جائےگی اور سرزمینِ اسرائیل کے لئے ، سب سے روشن رات گردانی جائے گی جب ایرانی ڈرونز اور میزائلز , تل ابیب پر ہر طرف شعلے برسا رہے تھے ، بروقت جوابی کارروائی کے ذریعہ ایران نے امت مسلمہ کے احساس کو جگانے کی کوشش کی ہے اور دشمن کو باور کرادیا گیا ہے کہ وہ بہت کمزور ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ہماری بزدلی نے دشمن کو طاقت ور بنایا ہے ۔ یورپ کا نفاق اور اس کے کردار کی ثنویت ایک بار پھر سامنے آئی جب جی ـ سات ممالک میں سے جاپان کو چھوڑ کر ہر یوروپی ملک نے اسرائیلی حملہ پر مذمت سے گریز کیا ۔ ہماری دعائیں ایران کے ساتھ ہیں اور تمنا ہے کہ وہ اسی طرح صہیونی سوچ کو دندان شکن جواب دیتا رہے گا ۔ گزشتہ تین دنوں کے دوران ، تل ابیب کی صورت حال دیکھ کر اہلِ اسرائیل نے بھی یقینا اہلِ غزہ کے درد کا کچھ نہ کچھ عملا تجربہ ضرور کیا ہوگا ۔ ایران ۔ اسرائیل کے درمیان حالیہ حملوں کے تناظر میں سعودی عرب کا موقف نہ صرف امید افزا ، حوصلہ افزا بلکہ جرأت مندانہ بھی ہے جب سعودی حکومت نے ایران پر اسرائیلی حملہ کی کھل کر مذمت کی اور ایران کو سعودی حمایت کا یقین دلایا ہے ۔ یورپ و امریکہ ایران پر دباؤ بنانے کی غرض سے اپنے ترکش کا آخری تیر آزمانے کے لئے کوشاں ہیں جس کے ذریعہ وہ موجودہ اسلام پسند ایرانی حکومت کے بدلاؤ ” regime change ” کی سازشوں میں مصروف ہیں اور جسے مصالحت کے لئے آخری شرط کے طور پر ایران کے سامنے پیش کئے جانے پر مجلسِ ابلیس میں منتھن جاری ہے ،تازہ ترین خبر یہی ہے کہ آج رات، اسرائیلی حملہ میں ایران کی Natanz nuclear facility کو جزوی نقصان پہنچا ہے ، ادھر ایران نے بھی چوتھے ایف 35 جیٹ کو مار گرایا اور اس کی جانب سے بھی یروشلم پر شدید حملے جاری ہیں ۔ یہ بھی ایک افسوسناک خبر ہے کہ چین اور روس کی جانب سے dull diplomacy کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ، جب کہ امریکہ اب تک جنگ میں کودنے کی ہمت نہ کرسکا، لیکن مناسب وقت کے انتظار میں بیٹھا ہے ۔ خدا رحم کرے ، یہ جنگ ، نہ صرف ایران بلکہ مشرق وسطی کے لئے بھی خطرناک موڑ لیتی نظر آرہی ہے ۔

ایک نظر غزہ پر :

اہلِ غزہ ، گزشتہ بیس مہینوں سے امید و یاس میں جی رہے ہیں ، پوری آبادی کو نسل کشی کا سامنا ہے ، بھوک مٹانے کے لئے قطاروں میں کھڑے لوگوں پر بم برسائے جا رہے ہیں ، امدادی سامان کے تقسیمی مراکز ، نئی قتل گاہیں بن گئی ہیں اور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ امریکہ نے غزہ میں نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے سیکیورٹی کونسل میں "غیر مشروط جنگ بندی” کی قرارداد کو ایک بار پھر ویٹو کردیا ۔
اسرئیلی حکمراں اور صہیونیت کے حامی امن کے دشمن ، خون کے خواہاں ہیں اور خون آشام طبیعت لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے نزدیک ، اہلِ فلسطین ، انسانی ہمدردی کے دائرہء استحقاق سے باہر ہیں ۔ جنگِ غزہ "حقِ دِفاع” کے جھوٹے مقدمے پر لڑی جاری ہے ، دو سال کا عرصہ ہونےکو ہے ، جنگ سے اسرائیل کو حاصل کیا ہوا ؟ جو من میں پنپتی رہی ، اب وہ بات ، ہر زبان اور ہر ملک کی پیشانی پر صاف لکھی نظر آرہی ہے کہ "اسرائیل اور حامیانِ اسرائیل امن کے دشمن ہیں” ، سرزمینِ غزہ پر گرفت کی کوششوں نے عالمی سطح پر اسرائیل اور امریکہ کو نہ صرف ، تنہا بلکہ persona non grata بناکر رکھ دیا ہے جو اِنہیں کا جائز حق ہے ۔
غزہ میں جنگ بندی کے لئے اب اسرائیل گفتگو کی میز پر نہیں ہے ، امریکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ حماس کے ساتھ گفت و شنید میں شریک ہے ، تازہ ترین معاہدء جنگ بندی کی جو تفصیلات منظرِ عام پر آئی ہیں وہ ، بد قسمتی سے، ناامیدی میں اضافہ کا دوسرا نام ہے ، نئے معاہدہ میں جنگ بندی کا مستقل خاتمہ یا ضمانت ندارد ہے ، اسرائیلی افواج کے اِنخلاء سے معاہدہ پوری طرح خالی ہے ، غزہ کے مستقبل پر گہرے بادل ہیں اور غیر معینہ مدت کے لئے گہن بھی ، امدادی سامان کی سپلائی دشمن کی صوابدید پر ہے ، گزشتہ کی مانند ، معاہدوں کی پاسداری مزاجِ اسرائیل پر منحصر ہے ۔ آپ نے اس حقیقت پر ضرور غور کیا ہوگا کہ چھ سو روزہ طويل جنگِ غزہ کے بعد بھی ، غزہ میں حماس ایک طاقت کی شکل میں موجود ہے ، ناقابلِ یقین حد تک بد سے بدترین حالات کے باوجود غزہ میں حماس کی بقا اور اس کا survival کسی معجزہ سے کم نہیں ہے ۔
دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ ٹرمپ صاحب کے ایک مختصر ترین ، دیانتدارانہ فون پر فوری جنگ بندی ممکن ہی نہیں یقینی بن سکتی ہے ، اگر ایسا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اب تک وہ نہ ہو سکا جس کی پوری دنیا منتظر ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو جائے ، اسرائیلی افواج کا انخلا ہو اور ریاستِ فلسطین کے قیام کیلئے کم ازکم راہِ عمل متعین کردی جائے ، لیکن اہلِ غزہ کی نشل کشی پر اب انتقامی جِبِلّت ، تجارت کا نشہ حاوی ہے ، اجتماعی بزدلی کے باعث مشرقِ وسطی کی گردن پر غلامی کا طوق ہر دن بھاری ہوتا نظر آرہا ہے ۔
جنگ غزہ بچوں، عورتوں اور بھوک سے مچلتی آبادی کے خلاف لڑی جارہی ہے ، غیرت کی آبادیاں ویران ہوگئیں ، لیکن بے غیرتی کا بازار گرم ہے ، مسلم حکمراں بھی عالمی سطح پر بےغیرتی کا اِشتہار بن گئے ہیں ، حکمراں طبقہ کی وفاداریوں اور دلچسپیوں کی بنیاد اب نہ اسلام رہا اور نہ ہی بحیثیت امت ، مسلمان ۔ عربوں کی ترجیحات میں ملکی مفادات شامل ہیں اور حکمرانی کے تحفظات ہی تعلقات کی بنیاد بن گئے ہیں ، لیکن اس تنقیدِ بالا میں حوثیوں کے حوصلوں کو استثنا حاصل ہے جو یقینا تصورِ امت کے احیاء کا ذریعہ اور آخری امید ہیں ۔
تاریخ ، قوموں کا آئینہ ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں محفوظ ہوتی ہیں ، جنگِ غزہ کی تاریخ میں ، جب کبھی کوئی مؤرخ جھانک کر دیکھے گا تو اسے ، گورے عربوں کی بد صورت شکلیں اور سیاہ چہرے نمایاں نظر آئیں گے ۔ غزہ کاچپہ چپہ بموں کی آوازوں سے دہل رہا ہے اور دنیا لمبی خموشی کی چادر تانے سوئی ہوئی ہے ۔ ہر کوئی شر کے خاتمہ کی تمنا ، من میں لئے گھوم رہا ہے لیکن شرکےخاتمہ کی ہمت اب تک کوئی نہ جُٹا پایا ، دشمن کے لئے بد دعا کرتے کرتے زبانیں تھک گئیں ، روتے روتے آنسو خشک ہوگئے ، امیدوں نے جان چھوڑ دی ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے معاملہ میں پوری دنیا مایوسی کی سمجھوتہ ایکسپریس پر سوار ہے ۔ تاریخ محض احساسات کا خزانہ نہیں ،کالے ، گورے کارناموں کا وہ دفتر ہے جو سبق آموز ہے اور عبرتناک بھی ہے ، جس کی کتابیں الماریوں میں رکھی بےجان ضرور نظر آتی ہے لیکن وہ ذہن و دماغ کی تشکیل کرنے والاجاندار اور شاندار ذخیرہ ہی نہیں ، یادوں کا زندہ جزیرہ اور قوموں کے ظاہر و باطن کا آئینہ ہوتی ہیں جہاں ان کا غم ، خم اور دم خم صاف نظر آتا ہے ، تاریخ کے تعاقب اور مؤاخذہ سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا ، عرب بھی نہ بچ پائیں گے ۔
غزہ کی تباہی کے مناظر اتنے ہولناک ہیں کہ ٹوٹے دلوں کی آہوں کو سنبھالنا مشکل ہورہا ہے ، تالے پڑی زبانوں کا شکوہء تمہیل اب خدا کی جانب بھی مڑنے لگا ہے ۔
حجم ، رقبہ ،آبادی، جائے وقوع اور عسکری طاقت میں کئی مسلم ممالک ، اسرائیل سے کئی گنا آگے ہیں، مصر ہی کو لے لیجئے، طاقت کے تقابل میں وہ کسی طرح اسرائیل سے کمزور نہیں، البتہ اسرائیل حتمی طور پر، ایک غیر اعلان شدہ نیوکلیئر پاور ہے ، اس پر مستزاد کہ امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ خطہ میں ہر ایک کے اعصاب پر اسرائیل کی بالادستی سر چڑھ کر بول رہی ہے اور جس کی ممکنہ چیرہ دستی سے پڑوسی ممالک خائف رہتے ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ، ترکی علاقہ کی ہی نہیں، امریکہ کے بعد ناٹو کی سب سے بڑی عسکری قوت کا حامل ہے ، ناٹو ملک کی حیثیت سے ، معاہدہ کے تحت ترکی کی سرزمین میں کئی ایٹمک وار ہیڈز موجود ہیں لیکن وہ امریکہ کے کنٹرول میں ہیں ۔ ایران بہرحال عزم و طاقت میں اسرائیل سے کم نہیں، لیکن بڑا ، سب سے بڑا فرق صرف یہی تو ہے کہ اسرائیل علاقہ کی واحد ایٹمی طاقت ہے ، یورپ کو بھی اب اندیشے ستانے لگے ہیں کہ کل ، باری باری ہماری بھی باری آسکتی ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی دشمن نے اپنے مخالف فریق کے خلاف وہ ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیا جس کی جرأت اسرائیل نے دکھلائی ہے اور وہ ہتھیار ہے "starvation” ، جہاں پوری آبادی کو بھکمری پر مجبور کردیا گیا ہے، لیکن اس بار اہل غزہ ، زمین کے لٹیروں سے چوکنا ہیں اور چوروں کو سرزمینِ غزہ کی چوری سے روکنے کے لئے متحد ہیں جس کے لئے وہ ہر دن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
ہر دن جو بیت رہا ہے ، اس نے حماس کی عسکری طاقت کو غزہ میں بہت کمزور کیا ہے ، لیکن امید کو یہ سچائی اِمداد پہنچاتی ہے کہ جرأت اور حوصلہ کی فصل اب تک وہاں مرجھائی نہیں ہے۔
آخری دعا یہی ہے کہ خدا مشرقِ وسطی کو فتنوں اور مزید ممکنہ خطروں سے محفوظ رکھے ، آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے