ایران کا 5000 کلومیٹر رینج کے بین البراعظمی میزائل نے ساری دنیامیں دہشت پھیلادی

ICBM

ایرانی میزائل زمین کے بیرونی atmosphere میں گیا اور پھر ہدف کی جانب آیا۔ تیز ترین سپیڈ اور ٹریجیکٹری سے لگتا یے یہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا۔

ابھی تک یہ کنفرم نہیں کہ یہ ICBM ہی یے یا میڈیم رینج بیلسٹک میزائل MRBM ہے۔ اگر یہ ICBM ہی ہے تو یہ بہت بڑا دھماکہ ہو گا۔

یہ میزائل عموماً پانچ ہزار کلومیٹر دور تک جا سکتے ہیں ۔ کچھ کی رینج دس ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہوتی ہے۔

لانچ ہونے کے بعد یہ میزائل انتہائی تیز رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ بعض اوقات 24,500 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ رفتار ہوتی ہے۔ یہ رفتار انہیں دفاعی نظاموں کے لیے روکنا انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔

یہ زمین سے لانچ ہو کر فضا کی بالائی تہوں اور بعض اوقات خلاء تک پہنچ کر واپس ہدف کی طرف اترتے ہیں۔ یہ انہیں زمین پر مبنی دفاعی نظاموں کی پہنچ سے دور رکھتا ہے۔

جدید ICBMs میں Multiple Independently Targetable Reentry Vehicles (MIRVs) کی صلاحیت ہوتی ہے یعنی ایک ہی میزائل کئی وار ہیڈز لے جا سکتا ہے اور ہر وار ہیڈ مختلف ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ دفاعی نظام پر دباؤ بڑھاتا ہے۔

یہ ICBMs روایتی اور غیر روایتی (جوہری، حیاتیاتی، کیمیائی) دونوں قسم کے وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہیں زمین پر موجود سائلوز (زیر زمین بنکرز) سے، متحرک لانچنگ پلیٹ فارمز (گاڑیوں پر) سے یا آبدوزوں (SLBMs – Submarine-Launched Ballistic Missiles) سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ متحرک لانچنگ پلیٹ فارمز انہیں دشمن کے حملے سے محفوظ رکھتے ہیں۔

جدید گائیڈنس سسٹمز (جیسے GPS کے ساتھ انرشیل گائیڈنس) انہیں ہدف تک انتہائی درستگی سے پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔

بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کو کسی بھی ملک کی تزویراتی روک (Strategic Deterrence) کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔

الجزیرہ نے رپوٹ کیا ہے کہ ایران نے بین البراعظمی میزائل داغا ہے اسرا/ئیل پر، یہ میزائل اگر ایران کے پاس موجود ہیں تو قوی امکانات ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں ، بین البراعظمی میزائل ٹیکنالوجی صرف تین ممالک کے پاس ہیں ، امریکہ ، چین اور روس ۔۔۔۔۔ اب اگر ایران نے یہ میزائل داغا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران میزائل ٹیکنالوجی میں کتنے آگے ہے ۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں یہ ہرگز نظر انداز کرنے والی بات نہیں ، اب امریکہ میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے