آرمی چیف عاصم منیر کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ٹرمپ کاظہرانہ

ٹرمپ کا ظہرانہ

19 جون 2025 کو ایک اہم سفارتی پیش رفت کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا، جہاں انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جنگ کی طرف جانے سے گریز کیا۔ اس ملاقات کے دوران، ٹرمپ نے کہا کہ "میں نے جنرل عاصم منیر کو جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے مدعو کیا تھا، اور ایران کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔” یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع اپنے عروج پر ہے، اور خطے میں امن کے لیے عالمی طاقتوں کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔

اس ملاقات کا اہتمام وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں دوپہر ایک بجے (پاکستانی وقت کے مطابق رات 10 بجے کے قریب) ظہرانے کے طور پر کیا گیا، جو دو گھنٹوں تک جاری رہی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی، اور دفاعی تعاون سمیت کئی اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق، اس ملاقات میں ایران اور اسرائیل کے تنازعے پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی، جہاں ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت خطے میں استحکام کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے، خاص طور پر ایران کے تناظر میں، جہاں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا تجربہ اور سمجھ بوجھ غیر معمولی ہے۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس موقع پر امریکی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید گہرائی دینے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ اس ملاقات کو پاک-امریکا تعلقات میں ایک غیر معمولی پیشرفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جو انسداد دہشت گردی، معاشی تعاون، اور خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے انسداد دہشت گردی میں تعاون کو جاری رکھنے، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی کے شعبوں، اور کرپٹو کرنسی میں اشتراک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔

اس ملاقات سے قبل، امریکی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ملاقات صرف ایران اور اسرائیل کے تناظر میں ہی نہیں دیکھی جانی چاہیے، بلکہ اسے پاکستان کی خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری اور سفارتی اہمیت کا مظہر بھی سمجھا جا رہا ہے۔ مائیکل کوگلمین جیسے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر کو مدعو کرکے پاکستان کو ایشیا میں طاقت کے توازن کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے، خاص طور پر بھارت کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے تناظر میں۔

دریں اثنا، بھارت نے اس ملاقات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، اور وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرمپ سے فون پر بات چیت کے دوران واضح کیا کہ ان کا ملک کشمیر کے مسئلے پر کسی بھی قسم کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی، اور امریکی کردار اس تناظر میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ٹرمپ کا بیان کہ "ایران کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا” خطے میں پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس ملاقات کے نتیجے میں، پاک-امریکا تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی دیکھی جا رہی ہے، جبکہ خطے میں امن کے لیے کوششوں میں پاکستان کا کردار نمایاں ہو رہا ہے۔ تاہم، اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ ملاقات ایران-اسرائیل تنازع کے حل میں کوئی بڑی پیش رفت کا باعث بنے گی، یا یہ صرف ایک علامتی قدم رہے گا۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ سفارتی کوشش کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے