ڈاکٹر محمد مرسی کو اپنے لئے روکاوٹ کون سمجھتا تھا ؟

ڈاکٹر محمد مرسی

ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط (8 اگست 1951ء – 17 جون 2019ء) مصر کے تاریخ میں ایک اہم اور متنازعہ شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ مصر کے پانچویں صدر اور اس ملک کے پہلے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے رہنما تھے، جنہوں نے 30 جون 2012ء سے 3 جولائی 2013ء تک اقتدار سنبھالا۔ اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے مرسی نے اپنے مختصر دورِ اقتدار میں اسلامی اقدار اور جمہوریت کے امتزاج کی کوشش کی، لیکن ان کی حکومت کا خاتمہ فوجی بغاوت کے ذریعے ہوا، جس نے انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا۔ ان کی موت جیل میں ایک متنازعہ واقعہ بن گئی، جو آج بھی بحث کا موضوع ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

محمد مرسی کا جنم مصر کے شرقیہ گورنریٹ کے ایک دیہاتی علاقے الادوہ میں ایک متوسط طبقے کے کسان خاندان میں ہوا۔ ان کے والد ایک کسان تھے، اور ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد، انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے 1975ء میں میٹلرجکل انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے 1978ء میں میٹریل سائنس میں ماسٹرز اور 1982ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ امریکہ میں رہتے ہوئے انہوں نے ناسا کے ساتھ بھی کام کیا، جہاں وہ خلائی شٹل کے انجنوں کے ڈیزائن میں حصہ لینے والی ٹیم کا حصہ رہے۔ 1985ء میں وہ مصر واپس آئے اور زقازیق یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں وہ 2010ء تک انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔

سیاسی سفر

محمد مرسی کا سیاسی سفر 2000ء میں شروع ہوا، جب وہ مصر کی پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر منتخب ہوئے، حالانکہ اس وقت اخوان المسلمین پر انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا۔ 2011ء میں عرب بہار کے دوران حسنی مبارک کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد، انہوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی، جو اخوان المسلمین کا سیاسی ونگ تھی۔ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے فوج کے حمایت یافتہ امیدوار احمد شفیق کو شکست دی اور 51.73 فیصد ووٹوں کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔

مرسی نے اپنے عہدے پر فوراً اصلاحات شروع کیں، جن میں سرکاری اخراجات کم کرنا، میڈیا کو آزادی دینا، اور سیاسی مفاہمت کے لیے کوشش کرنا شامل تھا۔ انہوں نے صدارتی محل میں قیام کو ترجیح نہ دی اور ایک سادہ فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئے، جو ان کی سادگی کی علامت بن گئی۔ انہوں نے فلسطین، خاص طور پر غزہ کی حمایت میں کھل کر بات کی، جو مغربی طاقتوں اور اسرائیل کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوئی۔ ان کے اسرائیل کے ساتھ گہرے نظریاتی اختلافات تھے، خاص طور پر فلسطین کے معاملے پر، جو ان کی پالیسیوں میں نمایاں تھے۔

اقتدار کا خاتمہ اور قید

مرسی کا دورِ اقتدار صرف ایک سال تک محدود رہا۔ 2013ء میں ان کی معاشی پالیسیوں اور اسلامی قوانین کی طرف جھکاؤ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔ 30 جون 2013ء کو فوج، جس کی قیادت جنرل عبدالفتاح السیسی کر رہے تھے، نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔ ان پر الزامات لگائے گئے کہ انہوں نے مظاہرین کو تشدد اور قتل پر اکسایا، جس کے نتیجے میں ان پر مقدمات چلائے گئے۔ ستمبر 2013ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا، اور ان کی جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

عدالت نے انہیں 20 سال قید کی سزا سنائی، جبکہ ایک مقدمے میں انہیں سزائے موت کی بھی سزا دی گئی، جو بعد میں کالعدم ہوئی۔ انہیں سخت سکیورٹی والے طورہ جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا، جہاں انہیں مناسب طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا، جس کی انسانی حقوق کی تنظیمیں نے شدید مذمت کی۔ کچھ مبصرین اور مرسی کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ نظریاتی اختلافات اور فلسطین کے لیے ان کی حمایت نے ان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کو جنم دیا، جس میں امریکہ اور اسرائیل کے کردار کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

موت اور تنازع

17 جون 2019ء کو محمد مرسی ایک عدالت میں جاسوسی کے مقدمے کی سماعت کے دوران بے ہوش ہو کر گر پڑے اور اسپتال لے جانے کے باوجود ان کی موت ہو گئی۔ سرکاری ذرائع نے دل کا دورہ قرار دیا، لیکن ان کے خاندان اور حامیوں، بشمول اخوان المسلمین، نے اسے "قتل” قرار دیا، الزام لگایا کہ انہیں قید میں دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ نظریاتی اختلافات اور ان کی پالیسیوں نے انہیں امریکہ اور اسرائیل کے ہدف بنا دیا، اور انہیں جیل میں رکھ کر بے بسی میں مرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کی موت نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی، اور ترکی، قطر جیسے ممالک نے انہیں شہید قرار دیا۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ادا کی گئی۔

ورثہ

ڈاکٹر محمد مرسی کو ان کے حامی ایک ایماندار اور اصولوں کے پابند رہنما کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو آمریت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کی سادگی، فلسطین کی حمایت، اور جمہوریت کے لیے جدوجہد ان کی شناخت بن گئی۔ تاہم، ان کے مخالفین انہیں معاشی ناکامی اور تقسیم پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کی موت نے مصر اور عالم اسلام میں سیاسی شعور کو بیدار کرنے کا کام کیا، اور ان کا نام آج بھی انصاف اور مزاحمت کی علامت کے طور پر زندہ ہے۔ ان کے حامیوں کے نزدیک، ان کی موت ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ تھی، جو ان کے نظریاتی موقف کی وجہ سے ہوئی۔

نتیجہ

محمد مرسی کی زندگی ایک ایسے رہنما کی کہانی ہے جس نے اقتدار کے بجائے اصولوں کو ترجیح دی۔ ان کی موت نے عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے مسائل کو اجاگر کیا، جبکہ ان کے اسرائیل کے ساتھ نظریاتی اختلافات اور اس سے پیدا ہونے والی تنقید نے ان کے قتل کے الزامات کو مزید تقویت دی۔ تاریخ ان کا فیصلہ وقت کے ساتھ کرے گی، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانی امت مسلمہ کے لیے ایک درس بن کر رہ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے