ٹرمپ مودی تنازعہ: نوبیل امن انعام کی خواہش نے بھارت امریکا تعلقات کو نئی کشیدگی میں عالمی سیاست کو نیا موڑ دیدیا

ٹرمپ کے توہین آمیز بیانات

عالمی سیاست میں ذاتی انا اور قومی مفادات کا امتزاج اکثر غیر متوقع حالات کو جنم دیتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے تعلقات میں پیدا ہونے والی نئی کشیدگی کو عالمی منظرنامے پر اجاگر کیا ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت ابھرا جب ٹرمپ نے پاک-بھارت کشیدگی کے خاتمے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں نوبیل امن انعام کی نامزدگی کی خواہش ظاہر کی، جسے مودی نے صاف مسترد کر دیا۔


پس منظر: پاک-بھارت کشیدگی اور جنگ بندی

اپریل 2025 میں پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ سرحدی جھڑپوں، ویزا سروسز کی معطلی اور بارڈر بندش نے خطے میں انسانی اور سفارتی بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ تاہم، جون 2025 میں دونوں ممالک نے براہ راست مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کا اعلان کیا، جسے عالمی سطح پر امن کی ایک مثبت پیش رفت سمجھا گیا۔

صدر ٹرمپ نے اس جنگ بندی میں اپنے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے اس عمل کو نوبیل امن انعام کے قابل کارنامہ سمجھا۔ لیکن بھارت نے ان دعوؤں کو سختی سے رد کیا اور واضح کیا کہ یہ فیصلہ صرف دو طرفہ مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔


تنازعہ کی جڑ: ٹرمپ-مودی فون کال

17 جون 2025 کو ہونے والی ٹرمپ-مودی ٹیلیفونک گفتگو اس تنازعہ کی اصل بنیاد بنی۔ اس گفتگو کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت بھی ان کی حمایت کرے۔

وزیراعظم مودی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت کبھی بھی کشمیر یا کسی دوسرے تنازعے میں تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول نہیں کرے گا، اور اس جنگ بندی کا سہرا صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست مذاکرات کو جاتا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے ٹرمپ کی نوبیل نامزدگی کی خواہش پر خاموش رہنے کے بجائے اسے صاف مسترد کر دیا۔ اس انکار کو ٹرمپ نے اپنی توہین کے طور پر لیا اور یوں تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا۔


تجارتی اور سفارتی اثرات

یہ تنازعہ صرف الفاظ تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے عملی سطح پر بھی اثرات مرتب کیے۔ رپورٹس کے مطابق:

  • ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی۔
  • امریکا نے بھارت کے روس سے تیل خریدنے اور دفاعی تعاون پر ناراضی ظاہر کی۔
  • کواڈ (Quad) اتحاد میں دراڑ پڑنے لگی، اور ٹرمپ نے بھارت میں ہونے والے آئندہ کواڈ سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا۔

ان اقدامات نے بھارت کو امریکا سے دور اور چین و روس کے قریب کر دیا۔ اس کا مظاہرہ مودی کے حالیہ دورۂ بیجنگ اور ماسکو میں شی جن پنگ اور ولادیمیر پیوٹن سے ملاقاتوں سے بخوبی ہوتا ہے۔


پاکستان کا کردار اور خطے پر اثرات

ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ پاکستان انہیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے والا ہے، پاک-امریکا تعلقات میں ایک نئی حرارت کا عندیہ دیتا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت نے اس دعوے کو مسترد کر کے خطے میں امریکا کے امن کردار کو محدود کر دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی اتحادوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے، خصوصاً جب کہ چین اور روس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہے ہیں۔


نتیجہ: ذاتی انا بمقابلہ قومی مفاد

ٹرمپ-مودی تنازعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں رہنماؤں کی ذاتی خواہشات اور انا کس قدر گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ نوبیل امن انعام کی خواہش نے ایک دیرینہ تعلق کو نئی کشیدگی میں دھکیل دیا ہے۔

جہاں ٹرمپ اپنی "امریکا فرسٹ” پالیسی کے تحت ذاتی کامیابیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے خواہاں ہیں، وہیں مودی اپنی "اصولی خارجہ پالیسی” کے تحت بھارت کے موقف پر ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ یہ کشیدگی مستقبل میں امریکا-بھارت تعلقات کو تجارتی، سفارتی اور عسکری سطح پر متاثر کر سکتی ہے، اور عالمی طاقتوں کے درمیان نئی صف بندی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔


انجینئر محمد علی مرزا مفتن یامحقق ؟

آزاد فلسطینی ریاست کبھی نہیں بنے گی: اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سعر کا دعویٰ

ہیئتھرو سے شکاگو کی پرواز میں ایک سبق ملاکہ اصل سفر نہ زمین پر ہےاور نہ آسمان میں

کیتھرین پیریز شکدم وہ یہودی جاسوس خوبصورت لڑکی جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے