مفتی عبدالغنی ازہریؒ: عظیم عالم، صوفی، مؤرخ اور مصلح، جنہوں نے امت کیلئے اعلیٰ خدمات انجام دیں

مفتی عبدالغنی ازہریؒ

پروفیسر مفتی عبدالغنی ازہریؒ (1922 – 2023)، جنہیں عبدالغنی شاہ الشاشی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، برصغیر کے اُن ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تقریباً ایک صدی تک دینِ اسلام، تصوف، تاریخ اور سماجی اصلاح کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔
آپ کا تعلق پونچھ (جموں و کشمیر) کی گوجر برادری سے تھا، جو صدیوں سے تعلیمی اور سماجی محرومیوں کا شکار رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت بنایا کہ آپ نے نہ صرف اس محروم طبقے کو علمی، فکری اور روحانی اعتبار سے بیدار کیا بلکہ پوری امت کے لئے رہنمائی اور وحدت کا پیغام چھوڑا۔


ابتدائی زندگی

مفتی عبدالغنی ازہریؒ کی ولادت 1922ء میں ضلع پونچھ کے ایک معزز گوجر گھرانے میں ہوئی۔ والد کا نام علی میاں شاشی تھا۔ بچپن ہی سے آپ میں تعلیم کا شوق اور دین سے وابستگی نمایاں تھی۔
آپ کے دادا، مولانا عبدالحلیم الشاشیؒ ایک معروف گوجر عالم اور قرآن کریم کے حافظ و مفسر تھے۔ انہی کی صحبت اور تربیت نے بچپن ہی سے آپ کے اندر علم و ایمان کی محبت پیدا کی۔
بعد ازاں آپ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سوگام (کوکرناگ، اننت ناگ) اور سہارنپور (یوپی) میں گزارا۔


تعلیمی سفر

مفتی عبدالغنی ازہریؒ نے بچپن سے ہی بڑی بڑی علمی درسگاہوں کا رخ کیا اور عظیم علماء سے استفادہ کیا۔

  • دارالعلوم دیوبند (1943ء): یہاں آپ نے شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ جیسے عظیم مجاہدِ آزادی اور محدث سے صحیح بخاری اور سنن ترمذی جیسے کتبِ حدیث پڑھیں۔
  • مزاہر العلوم سہارنپور (1949ء): یہاں آپ نے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے حدیث و فقہ کی گہرائیوں میں استفادہ کیا۔
  • جامعہ ازہر قاہرہ (1966ء): آپ نے یہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا تحقیقی موضوع تھا: “امام مسلم اور ان کا منہج روایت و درایت”۔ ساتھ ہی نفسیات میں ڈپلومہ بھی کیا جس نے آپ کی دینی و روحانی بصیرت کو جدید زاویہ عطا کیا۔
  • آپ پر مولانا ابوالکلام آزادؒ کے افکار کا بھی گہرا اثر تھا، جنہوں نے روایت و جدیدیت کے امتزاج کو اپنانے کی ترغیب دی۔

تدریسی اور علمی خدمات

آپ نے درس و تدریس کا آغاز مدینۃ العلوم، حضرت بل (سری نگر) سے کیا۔ بعد ازاں آپ کشمیر یونیورسٹی میں عربی شعبے کے سربراہ مقرر ہوئے اور 1997ء تک اس منصب پر فائز رہے۔
آپ نے قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی زبان و ادب میں بھی گہری خدمات انجام دیں۔

مہارت کے میدان

  • تفسیر قرآن: آپ نے جلالین سمیت متعدد تفاسیر کی تدریس کی۔
  • حدیث: آپ ایک مستند محدث تھے، آپ کی اسناد براہِ راست شاہ ولی اللہ دہلویؒ تک پہنچتی تھیں۔
  • فقہ: حنفی و شافعی فقہ دونوں پر عبور حاصل تھا۔
  • تصوف: آپ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ تھے اور روحانی تربیت کے لئے ہزاروں افراد نے آپ سے فیض حاصل کیا۔

صوفیانہ پہلو

بطور صوفی آپ کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے تھا۔
آپ کی روحانی تعلیمات کے بنیادی نکات تھے:

  • قلب و روح کی پاکیزگی۔
  • قرآن و سنت پر عملی التزام۔
  • امت میں اتحاد و بھائی چارہ۔
  • نرم خوئی، رواداری اور محبت۔

آپ کو "امیر الشریعہ” اور "صدر المفتیین” جیسے خطابات سے نوازا گیا۔


قائم کردہ ادارے

مفتی عبدالغنی ازہریؒ نے تعلیم اور سماجی بہبود کے لئے کئی ادارے قائم کئے، جن میں:

  1. مکتبہ انوار العلوم (کوکرناگ، 1950ء کی دہائی)
  2. مکتبہ ازہریہ (1960ء، بعد میں دارالعلوم بنا، 1980ء)
  3. دارالعلوم کوثریہ (نیا تھیڈ، ہارون، 1990ء)
  4. دارالعلوم شاہ ولی اللہ (دونی پوا، اننت ناگ، 2003ء)
  5. دارالعلوم نظامیہ مدینۃ الاسلام (بادشاہی باغ، سہارنپور)

ان اداروں نے ہزاروں طلبہ خصوصاً گوجر برادری کے نوجوانوں کو تعلیم اور شخصیت سازی کے مواقع فراہم کئے۔


تصنیفات

مفتی عبدالغنی ازہریؒ ایک کہنہ مشق مصنف بھی تھے۔ ان کی اہم کتابیں یہ ہیں:

  • قدیم تاریخِ گوجر: گوجر قوم کی تاریخ اور تہذیب پر ایک مفصل تحقیقی کتاب۔
  • ما لابُدّ منہ: میر سید علی ہمدانیؒ کی کتاب کا اردو ترجمہ۔
  • نور عرفان: سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیمات اور خطوط۔
  • گلزار معرفت: پنجابی زبان میں صوفیانہ تعلیمات۔
  • تعلیماتِ قرآن: نامکمل مگر قیمتی تفسیر۔

یہ کتابیں نہ صرف دینی بلکہ گوجر برادری کی تاریخی و ثقافتی شناخت کی بازیافت میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔


گوجر برادری اور سماجی اصلاح

مفتی عبدالغنی ازہریؒ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گوجر برادری کی upliftment کے لئے وقف کیا۔

  • ان کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے۔
  • ان کی تاریخ و ثقافت پر تحقیق کی تاکہ احساسِ کمتری دور ہو۔
  • نوجوانوں کو خود اعتمادی، جدید علوم اور دینی وابستگی کی تلقین کی۔
  • یتیموں اور ضرورت مندوں کے لئے خوراک، تعلیم اور کپڑوں کا انتظام کیا۔

آخری ایام اور وفات

اپنی آخری زندگی آپ نے سہارنپور اور کوکرناگ میں گزاری۔
19 جنوری 2023 کو آپ کا وصال ہوا۔ جنازہ سہارنپور میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں ادا کیا گیا، جس کی امامت مولانا محمد عاقل نے کی۔
اہم سیاسی و مذہبی شخصیات جیسے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے آپ کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔


وراثت اور یادگار

مفتی عبدالغنی ازہریؒ کی شخصیت علم، عمل، زہد اور خدمت کا حسین امتزاج تھی۔

  • آپ نے دین کو عبادات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اخلاق، خدمت اور اتحاد کا پیغام بنایا۔
  • آپ کی تصنیفات اور ادارے آج بھی امت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
  • گوجر برادری میں آپ نے نئی تعلیمی و فکری بیداری پیدا کی۔

آپ کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ ایک شخص خلوص اور عزم کے ساتھ امت کے لئے کتنا بڑا سرمایہ بن سکتا ہے۔

انجینئر محمد علی مرزا مفتن یامحقق ؟

آزاد فلسطینی ریاست کبھی نہیں بنے گی: اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سعر کا دعویٰ

ہیئتھرو سے شکاگو کی پرواز میں ایک سبق ملاکہ اصل سفر نہ زمین پر ہےاور نہ آسمان میں

کیتھرین پیریز شکدم وہ یہودی جاسوس خوبصورت لڑکی جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے