اسرائیل کی غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے شرائط پر رضامندی: صدر ٹرمپ

ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے ضروری شرائط پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری تنازعہ تقریباً دو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر اس پیش رفت کی تصدیق کی اور امید ظاہر کی کہ حماس بھی اس تجویز کو قبول کرے گا، کیونکہ ان کے بقول، اس سے بہتر معاہدہ ممکن نہیں۔ اس مضمون میں اس اعلان کی تفصیلات، اس کے پس منظر، شرائط، اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیاہے۔

پس منظر

غزہ میں تنازعہ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں شروع کیں، جن میں فضائی حملوں اور زمینی آپریشنز شامل تھے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اس تنازعے میں اب تک 56,647 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

اسرائیل کا مؤقف رہا ہے کہ جنگ کا خاتمہ حماس کے مکمل خاتمے سے مشروط ہے، جبکہ حماس مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اس دوران، متعدد جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوئیں، اور مذاکرات تعطل کا شکار رہے۔ تاہم، حالیہ پیش رفت، جو ٹرمپ کی ثالثی اور قطر و مصر کے کردار سے ممکن ہوئی، ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔

جنگ بندی کی شرائط

ٹرمپ کے اعلان کے مطابق، اسرائیل نے 60 روزہ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط کو قبول کر لیا ہے۔ اگرچہ شرائط کی مکمل تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاہدے میں درج ذیل اہم نکات شامل ہو سکتے ہیں:

  1. مؤقت جنگ بندی: 60 دن کی مدت کے دوران تمام فوجی کارروائیاں مکمل طور پر روک دی جائیں گی۔ اس دوران کوئی فضائی حملے، زمینی آپریشنز، یا راکٹ فائرنگ نہیں ہو گی۔
  2. یرغمالیوں کی رہائی: معاہدے کے تحت حماس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق، 68 یرغمالیوں کی رہائی کا امکان ہے، جن میں زندہ افراد اور ہلاک شدگان کی لاشیں شامل ہیں۔ پہلے ہفتے میں کچھ یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے۔
  3. انسانی امداد کی ترسیل: غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس میں خوراک، ادویات، اور دیگر ضروری اشیا شامل ہیں، جو غزہ کے عوام کی فوری ضروریات پوری کریں گی۔
  4. مذاکرات کا تسلسل: جنگ بندی کی مدت کے دوران، تمام فریقین مستقل امن معاہدے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں گے۔ قطر اور مصر اس عمل میں ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
  5. امریکی ضمانت: صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کی کامیابی کے لیے امریکی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، اور امکان ہے کہ امریکی نمائندے اس عمل کی نگرانی کریں گے۔

ٹرمپ کی ثالثی اور سفارتی کوششیں

صدر ٹرمپ نے اس جنگ بندی کی کامیابی کو اپنی سفارتی حکمت عملی سے منسوب کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے نمائندوں کی اسرائیلی حکام کے ساتھ طویل اور نتیجہ خیز ملاقاتیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں یہ معاہدہ ممکن ہوا۔ ٹرمپ کی انتظامیہ نے حال ہی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، جسے وہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو مضبوط کرنے کا ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں۔

ٹرمپ کا یہ بیان 7 جولائی 2025 کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ ان کی ملاقات سے قبل سامنے آیا ہے۔ اس ملاقات کو ایک "سخت مؤقف” والا اجلاس قرار دیا گیا ہے، جس میں غزہ کے تنازعے کے علاوہ خطے کی مجموعی صورتحال پر بات چیت متوقع ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، اور یہ معاہدہ اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہو سکتا ہے۔

حماس کا ردعمل

اب تک حماس کی جانب سے اس تجویز پر کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، حماس کے ایک سینیئر رہنما نے حال ہی میں کہا تھا کہ ثالثوں کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اب بھی تعطل کا شکار ہیں۔ حماس نے ہمیشہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا ہے، جو اس معاہدے کی شرائط سے متصادم ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے اس تجویز کو قبول نہ کیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی ردعمل

اس اعلان پر بین الاقوامی برادری کے ردعمل مختلف رہے ہیں۔ کچھ ممالک نے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے، جبکہ دیگر نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یہ وقتی حل تنازعے کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرے گا۔ عرب ممالک، خصوصاً مصر، قطر، اور سعودی عرب، نے جنگ بندی کی کوششوں کی حمایت کی ہے، لیکن وہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے خلاف ہیں، جو ٹرمپ کی پچھلی تجاویز کا حصہ رہی ہیں۔

یورپی ممالک، جیسے کہ فرانس اور جرمنی، نے بھی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں انسانی امداد کی فوری ترسیل کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ جنگ بندی کو دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

ممکنہ اثرات

اگرව

  1. انسانی امداد کی بحالی: جنگ بندی سے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں اضافہ ہوگا، جو وہاں کے عوام کے لیے زندگی بچانے والی امداد فراہم کرے گی۔
  2. مذاکرات کے لیے وقت: 60 دن کی جنگ بندی مستقل امن معاہدے کے لیے مذاکرات کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرے گی، لیکن اس کی کامیابی حماس کے ردعمل اور اسرائیل کی شرائط پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔
  3. خطے میں استحکام: اگر یہ معاہدہ کامیاب ہوتا ہے، تو یہ خطے میں کشیدگی کو کم کر سکتا ہے اور ایران جیسے دیگر فریقین کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
  4. سیاسی اثرات: ٹرمپ کی اس کامیابی سے ان کی سفارتی ساکھ کو تقویت مل سکتی ہے، جبکہ نیتن یاہو کے لیے یہ ملکی دباؤ کو کم کرنے کا ایک موقع ہو سکتا ہے، کیونکہ اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔

چیلنجز اور خدشات

اس معاہدے کے باوجود، کئی چیلنجز باقی ہیں:

  • حماس کی رضامندی: اگر حماس نے اس معاہدے کو مسترد کیا تو جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
  • مستقل حل کا فقدان: یہ جنگ بندی وقتی ہے اور تنازعے کے بنیادی مسائل، جیسے کہ فلسطینیوں کے حقوق اور دو ریاستی حل، کو حل کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
  • بین الاقوامی دباؤ: عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

نتیجہ

صدر ٹرمپ کا غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل کی رضامندی کا اعلان ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، جو خطے میں امن کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ تاہم، اس کی کامیابی حماس کے ردعمل، شرائط پر عملدرآمد، اور مستقل امن کے لیے مذاکرات کی کامیابی پر منحصر ہے۔ یہ معاہدہ غزہ کے عوام کے لیے امداد کی فراہمی اور یرغمالیوں کی رہائی کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے، لیکن تنازعے کے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر دیرپا امن ممکن نہیں۔ عالمی برادری کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک منصفانہ اور پائیدار حل کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔

حوالہ جات

  • ایکسپریس اردو، 2 جولائی 2025
  • بی بی سی اردو، 2 جولائی 2025
  • امت نیوز، 2 جولائی 2025
  • صوچ ٹی وی، 2 جولائی 2025

ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے