ایران اسرائیل جنگ! کچھ امیدیں، کچھ اندازے اور کچھ اندیشے

اسرائیلی حملے

اسرائیل کا ایران پر حالیہ اچانک حملہ مکمل طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کی شہ پر ہوا ہے۔ ٹرمپ لاکھ صفائی پیش کرے کہ حملہ اسکی مرضی سے نہیں ہوا ہے لیکن‌ یہ بات کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔
دراصل حالیہ امریکی الیکشن میں امریکہ میں موجود یہودی لابی نے سو ملین اور ایلن مسک نے اکیلے دو سو پچھتر ملین ڈالر ٹرمپ کو چندہ دیا تھا کہ جیتنے کے بعد اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے نجات دلانے میں مدد کرنی ہوگی۔
یہ وہی قرضہ ہے جو ٹرمپ اتارنا چاہا تھا۔ اور اسرائیل کو اشارہ کرکے ایران پر اچانک حملہ کروادیا۔
ٹرمپ نے شاید یہ سوچ رکھا تھا کہ ملک شام میں جسطرح ایک بڑے ایرانی عہدیدار اور ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو اسرائیل نے قتل کیا تھا اور ایران کا کوئی سخت ردعمل نہیں آیا تھا۔ اس بار بھی ایسا کوئی سخت ردعمل نہیں آئیگا۔ اور پورے خلیج پر اسرائیل کی ایک دہشت بیٹھ جاۓگی۔
لیکن اللہ کا کچھ ایسا کرنا ہوا کہ اس بار ٹرمپ اور نتنیاہو دونوں کا پانسہ الٹا ہوگیا۔ ٹرمپ اور نتنیاہو ایران کے ٹرمپ کارڈ میں پھنس گئے۔
پہلے دن اگرچہ ایران کا خاطرخواہ نقصان ہوا۔ کئ بڑے ایٹمی و غیر ایٹمی سائنسدان اور فوج کے بڑے جنرل کرنل کو نشانہ بنایا اور متعدد فوجی تنصیبات کو ۔نقصان ہوا۔ لیکن‌ ایران کا ایٹمی پلانٹ محفوظ رہا۔
ایران کے اس نقصان سے ٹرمپ اور نتنیاہو بہت خوش اور مطمئن تھے کہ ان کا مقصد پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ لیکن اس بار ٹرمپ اور نتنیاہو کی ساری خوش فہی اس وقت دھری کی دھری رہ گئ جب ایران کے میزائلوں نے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب، حیفا، تیل و گیس کے ڈپو، وزارت دفاع کی بلڈنگ اور اسرائیل کے دیگر شہروں اور تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جس سے پورے اسرائیل میں ایک افراتفری پھیل گئ۔ اسرائیل کا سارا ائیر ڈیفنس نام ہوگیا۔اسقدر نقصان ہوگیا جسکا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قیام سے لیکر آجتک اسکی ایسی دھلائی کبھی نہیں ہوئی تھی۔
ایران کی طرف سے میزائل کے اس قدر شدید اور متواتر رد عمل سے اسرائیل کا معروف و مشہور آئرن ڈوم سسٹم بھی ڈگمگا گیا۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایران سے جنگ بندی کی سفارش کیلیے نتنیاہو کو پوتن کے پاس اور ٹرمپ کو متعدد ملکوں کے سربراہان کے پاس فون کرنا پڑا۔
دریں اثناء ایران نے دھمکی دی ہے کہ امریکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سمیت اگر کسی نے اسرائیل کیساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کی تو وہ ان تمام چھاؤنیوں کو نشانہ بناۓگا جہاں جہاں امریکہ اور برطانیہ کے اسلحہ ڈپو اور فوجی موجود ہیں۔
ایران کی اس دھمکی سے امریکہ سخت الجھن میں پڑگیا ہے۔ دوسری طرف روس چین اور شمالی کوریا کی طرف سے در پردہ ایران کو ساتھ ملتا نظر آرہا ہے۔
اگر یہ جنگ بندی جلدی نہیں ہوتی تو تیزی سے دنیا کے نقشے پر تیسری عالمی جنگ کے نقشے ابھرتے نظر آرہے ہیں۔
ایران کی بڑی کامیابی یہ کہ اسکا دفاعی سسٹم تمام کا تمام اسکا اپنا تیار کردہ ہے۔ کسی سے خریدا یا کرایہ پر لیا ہوا نہیں ہے۔
ایران ایٹمی تجربات کے بھی بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ اس کے پاس ابھی بھی ہزاروں ایسے میزائل ہیں جو پندرہ سو سے دوہزار کلو میٹر دور تک مار کرنے کیلیۓ کارآمد ہیں۔ اور اس نے اپنے تمام میزائلوں کو دور و نزدیک کے مختلف شہروں میں مختلف جگہ پر پھیلا کر رکھا ہے۔ جبکہ اسرائیل کا رقبہ ایران کے بالمقابل بہت محدود ہے۔
ایران کے ہزاروں سائنسدان آج بھی ایٹمی پروگرام اور میزائلوں کو دن رات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
دفاعی مبصرین کا ذکہنا ہے کہ اسوقت ایران کی میزائل ٹیکنالوجی روس ، چین اور شمالی کوریا کے ہم پلہ ہوچکی ہے۔ اور یہ تیاری ایران گذشتہ 25 برسوں سے کررہا ہے۔
فی الوقت ایران نے اس لحاظ سے اسرائیل پر برتری حاصل کرلی ہے کہ اس نے ابھی تک کسی سے عسکری مدد نہیں مانگی ہے اور نہ جنگ بندی کی بات کی ہے ۔ اور دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ اسرائیل ایسا کچھ نہیں ہے جسکا وہ ابتک ہوا کھڑا کرتا آیا ہے۔ جبکہ اسرائیل بار بار امریکہ سے جاری جنگ میں شامل ہونے کی درخواست کرچکا ہے۔ جنگ رکوانے کیلیۓ کئ ممالک کے پاس فون کرچکا ہے ۔
شاید اسی لۓ کچھ عرب ممالک کے سربراہان ایران سے اظہار یکجہتی اور اسرائیل کی طرف سے چھیڑی گئ جنگ کی کھل کر مذمت کررہے ہیں۔
اگر یہ جنگ بندی ایران کی شرائط پر ہوتی ہے تو واضح طور سے خطے میں ایران ایک فاتح کے طور پر سامنے آۓ گا۔
خدشہ یہ ہے کہ اگر ایران کو یہ احساس ہوگیا کہ خلیجی ممالک میں وہ سب سے بڑا طاقتور ملک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور اسی دوران وہ ایٹمی تجربہ بھی کر لیتا ہے تو یقینی طور پر اسکے اندر توسیع پسندانہ عزائم انگڑائیاں لینے لگیں گے۔ کیونکہ ماضی کے مد نظر اس سے کسی وفا کی امید نہیں جاسکتی۔ اور یہ بات خطۂ عرب کیلیۓ اطمینان بخش نہیں ہوگی۔
اس جنگ میں ہم یہ تو چاہیں گے کہ ایران اسرائیل کی مکمل تباہی اور فلسطین کی آزادی کا سبب بنے۔ لیکن یہ نہیں چاہیں گے کہ خطہ کیلیۓ وہ ایک توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ منظر عام پر آۓ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے