ٹرمپ کاایران سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی دھمکی، ایران کا اسرائیل پر آواز سے تیز ہائپرسانک میزائل حملے کا دعویٰ

ہائپرسانک میزائل


ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی بدھ کے روز چھٹے دن میں داخل ہو چکی ہے، جب کہ صورتحال مزید خطرناک رخ اختیار کر گئی ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر حملے کے دوران "فتاح 1” ہائپرسانک میزائل استعمال کیے، جو آواز سے کئی گنا تیز رفتار میزائل ہیں اور جدید فضائی دفاعی نظام کو چکمہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پاسدارانِ انقلاب کے مطابق، ان میزائلوں کے ذریعے اسرائیلی فضائی حدود پر "مکمل کنٹرول” حاصل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ بدھ کی صبح ایران نے دو مرحلوں میں میزائل حملے کیے جن میں تل ابیب اور شمالی اسرائیل کو نشانہ بنایا گیا۔ شمالی اسرائیل میں “دشمن طیارے” کی موجودگی پر خطرے کے سائرن بجائے گئے، جب کہ دارالحکومت کے آسمان پر دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

خامنہ ای کا سخت پیغام: ’’کوئی رحم نہیں کریں گے‘‘

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر انگریزی زبان میں سخت پیغام جاری کرتے ہوئے کہا:
"ہم سخت ردعمل دیں گے… کوئی رحم نہیں دکھائیں گے۔”

یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل نے تہران کے شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا تاکہ فوجی تنصیبات پر فضائی حملے کیے جا سکیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق تہران اور کرج میں بھی دھماکے سنے گئے ہیں۔

ٹرمپ کی دھمکی اور قومی سلامتی اجلاس

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر کے لیے بالواسطہ دھمکی جاری کرتے ہوئے Truth Social پر لکھا:
"ہم جانتے ہیں وہ کہاں چھپا ہے… وہ ایک آسان ہدف ہے، مگر ہم فی الحال اسے نہیں ماریں گے۔”

کچھ دیر بعد ٹرمپ نے دوسرا پیغام دیا:
"غیر مشروط ہتھیار ڈال دو!”

اسی دن صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ساتھ 90 منٹ طویل اجلاس کیا۔
امریکی حکام نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ایران پر کسی حملے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ مشرق وسطیٰ میں مزید امریکی جنگی طیارے تعینات کر دیے گئے ہیں، اور دفاعی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں اسرائیل کی مدد بھی شامل ہے۔

سائبر محاذ پر بھی جنگ

ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے ایران کی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر وسیع سائبر حملے شروع کر دیے ہیں، جس سے ایران کے بعض حکومتی نظام متاثر ہوئے ہیں۔

ایران اور اسرائیل کا مؤقف

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔
ایران نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل خود جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کا رکن نہیں ہے اور عمومی طور پر اسے مشرق وسطیٰ کا واحد جوہری ریاست سمجھا جاتا ہے۔

انسانی نقصان

ایرانی حکام کے مطابق اب تک 224 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، جب کہ اسرائیل نے 24 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق زخمیوں کی تعداد 1300 سے زائد ہو چکی ہے، اور تل ابیب سمیت کئی علاقوں میں اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

نتیجہ: کھلی جنگ کے دہانے پرماہرین کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اب ایک کھلی جنگ میں بدلتی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ نے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا تو مشرق وسطیٰ ایک نئی، بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ دنیا بھر کی نظریں اب واشنگٹن کے اگلے فیصلے پر مرکوز ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے