تل ابیب کے جنوب میں واقع اسرائیلی شہر بیت یام اتوار کی صبح اس وقت دہل کر رہ گیا جب ایک ایرانی بیلسٹک میزائل دس منزلہ رہائشی عمارت پر آ گرا، جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی یا ملبے تلے دب گئے۔ یہ میزائل ایران کی جانب سے اسرائیل پر جاری جوابی کارروائی کا حصہ تھا، جو جمعے کے دن سے جاری ہیں۔
علاقے میں خوف و صدمہ، مگر کارروائی کی حمایت برقرار
33 سالہ ویرونیکا، جو حملے کی جگہ سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر رہتی ہیں، کا کہنا ہے: "ایسا کرنا ضروری تھا، مگر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم بھی اس طرح متاثر ہوں گے۔” ان کے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور وہ صدمے کی حالت میں صرف ایک سوٹ کیس میں سامان رکھ کر عمارت سے باہر نکلی تھیں۔
بیت یام کا علاقہ ہمیشہ سے اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومتوں کا مضبوط حامی رہا ہے۔ اس نقصان کے باوجود یہاں کے زیادہ تر شہری ایران پر کارروائی کو درست قرار دے رہے ہیں۔ 68 سالہ مقامی شہری ایوی نے کہا: "ہمیں حملہ جاری رکھنا ہو گا، ورنہ وہ ہم پر ایٹم بم گرا دیں گے۔”
میزائل کی شدت، انسانی المیہ
یہ ایرانی میزائل وہ عام راکٹ نہیں تھا جو پہلے غزہ یا لبنان سے آتے رہے ہیں۔ یہ بیلسٹک میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام سے بچ نکلا، اور اپنے ساتھ شدید تباہی لایا۔ طبی ٹیم کے رکن اوری نے بتایا کہ کئی افراد ملبے سے نکالے گئے، مگر کچھ اب بھی لاپتہ ہیں۔ "میں نے ان کی آنکھوں میں خوف دیکھا، وہ راکھ سے اٹے ہوئے باہر آ رہے تھے۔”
سیاسی منظرنامہ اور عوامی رائے
اگرچہ وزیر اعظم نتن یاہو کو غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے، مگر ایران کے خلاف کارروائی پر انہیں اپوزیشن کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اتوار کے دن ان کے بیت یام پہنچنے پر لوگوں نے نعرے لگائے: "بی بی، اسرائیل کے بادشاہ!” انہوں نے اپنی تقریر میں کہا: "میں نے کہا تھا کہ مشکل دن آئیں گے، اور یہ ایک مشکل دن تھا۔”
قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے بھی حملے سے متاثرہ دکانوں کا دورہ کیا۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایران کے خلاف جنگ کے حق میں ہیں تو ان کا فوری جواب تھا: "بلکل، یہ کیسا سوال ہے؟”
ماہرین کا انتباہ: حمایت مستقل نہیں رہ سکتی
مشرق وسطیٰ امور کے ماہر پروفیسر یوسی مکلبرگ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عوام میں ایران کی جوہری صلاحیت روکنے پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے۔ تاہم ان کے بقول: "یہ تنازع اب ایک کھلی جنگ میں بدل رہا ہے، اور 20 ماہ بعد اسرائیل جنگی تھکاوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔” ان کے مطابق اگر شہری ہلاکتیں بڑھتی ہیں، یا لوگ طویل عرصے تک پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، تو یہ حمایت کم ہو سکتی ہے۔
نتیجہ: سوال باقی ہے
فی الحال اسرائیلی حکومت کو ایران کے خلاف اپنی کارروائیوں پر عوامی حمایت حاصل ہے، مگر بیت یام جیسے واقعات اس جنگ کی قیمت واضح کر رہے ہیں۔ عوام اب یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ کیا اسرائیل اس تنازع کو مزید طول دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اور کیا اگلا حملہ ان کے اپنے گھر پر تو نہیں ہو گا؟