فرانس ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا اور مسلم ممالک اب تک تماشائیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں

فلسطینی ریاست

فرانس کے ستمبر 2025ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے نے عالمی سفارتی منظرنامے میں ایک اہم موڑ پیدا کیا ہے۔ اس اقدام نے جہاں یورپی ممالک، خصوصاً برطانیہ پر فلسطینی ریاست کی تسلیم کے لیے دباؤ بڑھایا، وہیں عرب ممالک اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی خاموشی اور غیر فعال کردار کو بھی نمایاں کیا۔ تاریخی طور پر فلسطینی کاز کے سب سے بڑے حامی سمجھے جانے والے عرب ممالک اس نازک موقع پر ایک فعال کردار ادا کرنے کے بجائے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ مضمون اس صورتحال کے اسباب، اثرات اور ممکنہ نتائج کا جائزہ لیتا ہے۔

عرب ممالک کی تاریخی پوزیشن

فلسطینی مسئلہ عرب دنیا کے لیے ایک جذباتی اور سیاسی ایجنڈا رہا ہے۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے عرب لیگ نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی، اور 1967ء کی جنگ کے بعد عرب ممالک نے فلسطینیوں کے لیے سیاسی اور مالی امداد فراہم کی۔ 2002ء میں عرب امن منصوبہ (Arab Peace Initiative) پیش کیا گیا، جس میں دو ریاستی حل کی تجویز دی گئی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں عرب ممالک کی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں، اور وہ علاقائی استحکام، اقتصادی ترقی، اور ایران کے اثر و رسوخ کے مقابلے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال: تماشائی کا کردار

فرانس کے فیصلے کے بعد، جہاں سعودی عرب، اسپین، آئرلینڈ اور دیگر ممالک نے اس کی حمایت کی، عرب ممالک کی اکثریت نے کوئی واضح یا فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کیا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:

  1. علاقائی ترجیحات کا بدلاؤ: عرب ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستیں، اب اپنی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے (Normalization) کو ترجیح دے رہی ہیں۔ 2020ء کے ابراہیم معاہدوں کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، جبکہ سعودی عرب بھی غیر رسمی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ یہ ممالک فلسطینی کاز کو سیاسی نقصان کے بغیر آگے بڑھانے سے گریز کر رہے ہیں، کیونکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی شراکت داری کو اہم سمجھتے ہیں۔
  2. اندرونی چیلنجز: مصر اور اردن جیسے ممالک، جو تاریخی طور پر فلسطینی کاز کے حامی رہے ہیں، اب اندرونی اقتصادی اور سیاسی مسائل سے دوچار ہیں۔ مصر میں معاشی بحران اور اردن میں پناہ گزینوں کے دباؤ نے ان کی توجہ فلسطینی مسئلے سے ہٹائی ہے۔ اس کے علاوہ، شام اور یمن جیسے ممالک خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کوئی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
  3. امریکا اور اسرائیل سے دباؤ: عرب ممالک، خصوصاً وہ جو امریکا کے قریبی اتحادی ہیں، امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے زیر اثر ہیں۔ فرانس کے فیصلے کو امریکا اور اسرائیل نے "دہشت گردی کا انعام” قرار دیا، جس سے عرب ممالک کو خدشہ ہے کہ فلسطینی ریاست کی تسلیم ان کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
  4. عرب لیگ کی غیرفعالیت: عرب لیگ، جو کبھی فلسطینی کاز کی مضبوط آواز تھی، اب اس معاملے میں غیر فعال دکھائی دیتی ہے۔ عرب لیگ کے رکن ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات، جیسے کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی، نے اسے متحدہ موقف اپنانے سے روک رکھا ہے۔

دیگر مسلم ممالک کا کردار

غیر عرب مسلم ممالک، جیسے کہ ترکی، ایران، اور ملائیشیا، نے فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے، لیکن ان کا اثر و رسوخ محدود ہے۔ ترکی نے سفارتی طور پر فلسطین کی حمایت کی، لیکن اس کی توجہ شام اور کرد مسائل پر زیادہ ہے۔ ایران، جو حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے، فلسطینی کاز کو اپنی علاقائی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتا ہے، لیکن اس کا نقطہ نظر عسکری ہے نہ کہ سفارتی۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے فلسطین کی حمایت کی، لیکن ان کی عالمی سفارتی رسائی محدود ہے۔

اثرات

عرب ممالک کی اس غیر فعال پوزیشن کے کئی منفی اثرات ہیں:

  • فلسطینیوں کا تنہائی کا احساس: فلسطینی قیادت، خصوصاً فلسطینی اتھارٹی، اس خاموشی سے مایوس ہے، کیونکہ وہ عرب ممالک سے فعال حمایت کی توقع رکھتی ہے۔
  • یورپی ممالک کی قیادت: فرانس، اسپین، اور آئرلینڈ جیسے ممالک کی سرگرمی نے عرب ممالک کی غیر فعالیت کو اور نمایاں کیا، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فلسطینی کاز اب مغربی ممالک کی قیادت میں آگے بڑھ رہا ہے۔
  • دو ریاستی حل کی کمزوری: عرب ممالک کی غیر فعالیت سے دو ریاستی حل کے لیے عالمی دباؤ کمزور پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان کا متحدہ موقف اس حل کے لیے ضروری ہے۔

خلاصہ:

فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ایک تاریخی موقع ہے، لیکن عرب ممالک کی خاموشی اور غیر فعال کردار اس موقع کو کمزور کر رہا ہے۔ اگر عرب ممالک فلسطینی کاز کی حمایت میں متحدہ اور فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتے، تو وہ نہ صرف اپنی تاریخی ذمہ داری سے دستبردار ہو رہے ہیں، بلکہ عالمی سفارتی منظرنامے میں اپنا اثر و رسوخ بھی کھو رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے انصاف اور دو ریاستی حل کے لیے عرب ممالک کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ محض تماشائی بن کر رہ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے