15 اگست 2025 کو الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد، انڈیا کی جانب سے روسی تیل کی خریداری ایک اہم سفارتی اور اقتصادی موضوع بن گیا ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں انڈیا پر روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے 25 فیصد درآمدی ٹیرف اور جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، اور یہاں تک کہ 500 فیصد ڈیوٹی کے ممکنہ بل کا ذکر بھی کیا گیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر کہا کہ انڈیا نہ صرف بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے عالمی منڈیوں میں منافع کے ساتھ فروخت بھی کر رہا ہے، جو یوکرین میں جاری جنگ کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
تاہم، انڈین حکام نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی دباؤ کے باوجود روس سے خام تیل کی خریداری جاری رکھیں گے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ توانائی کی ضروریات کو محفوظ بنانا انڈیا کی اولین ترجیح ہے، اور تیل کی خریداری عالمی مارکیٹ کی حقیقتوں اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ انہوں نے امریکی پابندیوں کو ’غیر منصفانہ‘ اور ’دوہرے معیار‘ پر مبنی قرار دیا، کیونکہ امریکہ اور یورپی ممالک خود روس سے تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انڈیا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ملک ہے، جو اپنی خام تیل کی ضروریات کا تقریباً 35 سے 38 فیصد روس سے پورا کرتا ہے۔ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد، جب یورپی ممالک نے روسی تیل کی خریداری کم کی، انڈیا نے سستے داموں پر روسی تیل کی درآمد میں نمایاں اضافہ کیا۔ اپریل 2025 میں، عالمی ادارے ’کپلر‘ کے اعداد و شمار کے مطابق، انڈیا نے روزانہ 21.5 لاکھ بیرل تک روسی تیل درآمد کیا، جو مئی 2023 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ مالی سال 2024-25 میں انڈیا نے تقریباً 38 ارب پاؤنڈ مالیت کا روسی تیل درآمد کیا۔
انڈین حکام نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ مودی حکومت نے تیل کمپنیوں کو روس سے خریداری روکنے کی کوئی ہدایت نہیں دی، اور یہ فیصلے قیمت، معیار، اور لاجسٹکس جیسے معاشی عوامل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا نے روس سے روزانہ 58 لاکھ بیرل تیل نہ خریدا ہوتا، تو عالمی تیل کی قیمتیں مارچ 2022 میں 137 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ ہو سکتی تھیں۔
امریکی دھمکیوں کے باوجود، انڈیا نے روس کے ساتھ ’مستقل اور وقت کی آزمائش پر پورا اترنے والی شراکت‘ پر زور دیا ہے۔ تاہم، حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارکیٹ کے عوامل کی وجہ سے روسی تیل کی درآمد میں کچھ کمی آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے روس سے سستا تیل خریدنا نہ صرف اقتصادی طور پر فائدہ مند ہے بلکہ عالمی تیل کی منڈیوں کو مستحکم رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ کی غیر متوقع حکمت عملی نے انڈیا کے لیے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو متوازن رکھنا ایک چیلنج بنا دیا ہے۔ واشنگٹن کے ’سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز‘ کے تجزیہ کار رچرڈ روسو کے مطابق، انڈیا کو ٹرمپ کی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
آخر میں، انڈیا نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات اور قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے، اور امریکی دباؤ یا ٹیرف کی دھمکیوں کے باوجود روس سے تیل خریدنا جاری رکھے گا۔ تاہم، اگر پابندیاں سخت ہوئیں یا تیل کی قیمتیں بڑھیں، تو عالمی منڈیوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے، جہاں تیل کی قیمتیں 100 سے 120 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔
مزید خبریں:
اہلِ بیت رضی اللہ عنھم ایک ماڈل خانوادہ
مسلمان ہونے کی تمنا رکھنے والی اٹلی کی غیر مسلم خاتون کا سوال
ہیروشیما پر ایٹمی حملے کی 80ویں برسی، جاپان کا پرامن دنیا کے لیے مؤثر پیغام
عاقل نذیر افغان بزرگ نے دعویٰ کیا کہ میں آج 140 سال کا ہوں اور 1880 میں پیدا ہواہوں
ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں