انڈیا آؤٹ کا نعرہ دینے والا معیزو پھر بیٹھا مودی کی گود میں مالدیپ کی ضرورت یا مجبوری ؟

انڈیا آؤٹ کا نعرہ

مالدیپ، بحر ہند میں 1200 جزائر کا ایک بکھرا ہوا مجموعہ، جغرافیائی اور تزویراتی طور پر دنیا کے اہم ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی صرف 5.21 لاکھ ہے، لیکن اس کا مقام بحر ہند کے اہم سمندری راستوں کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ یہ وہ راستے ہیں جن سے خلیجی ممالک سے انڈیا اور مشرقی ایشیا تک توانائی کی ترسیل اور بین الاقوامی تجارت ہوتی ہے۔ اسی اہمیت کی وجہ سے مالدیپ انڈیا کے لیے ایک نازک اور اہم شراکت دار ہے، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور پر صدر محمد معیزو کی "انڈیا آؤٹ” مہم نے ان تعلقات کو ایک نئے امتحان سے دوچار کیا، لیکن اب معیزو کا انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دوبارہ تعلقات بہتر کرنے کی طرف بڑھنا ایک دلچسپ موڑ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مالدیپ کی ضرورت ہے یا مجبوری؟

مالدیپ کا جغرافیائی اور تزویراتی مقام

مالدیپ کا جغرافیہ اسے بحر ہند میں ایک کلیدی مقام دیتا ہے۔ یہ انڈیا کے لکشدیپ سے صرف 700 کلومیٹر اور انڈیا کی سرزمین سے 1200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بحر ہند کے اہم سمندری راستوں کے قریب ہونے کی وجہ سے مالدیپ عالمی تجارت اور توانائی کی ترسیل کے لیے ایک اہم گزرگاہ ہے۔ تھنک ٹینک او آر ایف کے سینیئر فیلو منوج جوشی کے مطابق، "مالدیپ وہاں واقع ہے جہاں خلیجِ فارس سے مشرقی ایشیا تک اہم سمندری لین گزرتی ہے، جسے انڈیا اپنی تجارت اور توانائی کی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔” اسی طرح، سابق انڈین ہائی کمشنر وینا سیکری کا کہنا ہے کہ "مالدیپ ایک اہم سمندری راستہ ہے، جو انڈیا کی توانائی کی امپورٹس اور سمندری نگرانی کے لیے ناگزیر ہے۔” اس تناظر میں، مالدیپ کے ساتھ اچھے تعلقات انڈیا کے اقتصادی اور سٹریٹیجک مفادات کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔

معیزو کا "انڈیا آؤٹ” نعرہ اور سیاسی تبدیلی

مالدیپ 1965 میں برطانیہ سے آزاد ہوا اور 1968 میں ایک آئینی اسلامی جمہوریہ بنا۔ 2008 میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا، جو اس کی سیاست اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 2023 میں محمد معیزو کے صدر بننے سے قبل مالدیپ کی پچھلی حکومت "انڈیا فرسٹ” پالیسی پر عمل پیرا تھی، لیکن معیزو نے اپنی انتخابی مہم میں "انڈیا آؤٹ” کا نعرہ بلند کیا۔ اس مہم نے انڈیا مخالف جذبات کو ہوا دی اور معیزو کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ معیزو نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنے اور چین کے ساتھ قریبی تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے ترکی، متحدہ عرب امارات، اور چین کا دورہ کیا، جبکہ انڈیا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری رہی۔

معیزو نے اپنی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ انڈیا کی فوجی موجودگی کو مکمل طور پر ختم کریں گے۔ انہوں نے مارچ 2024 میں اعلان کیا کہ "10 مئی کے بعد مالدیپ میں انڈین فوجی، خواہ وہ وردی میں ہوں یا سول کپڑوں میں، موجود نہیں ہوں گے۔” اس کے علاوہ، معیزو نے چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ کیا اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی کھل کر حمایت کی۔ چین نے بھی مالدیپ میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی، جن میں 20 کروڑ ڈالر کا چین-مالدیپ دوستی پل اور 2016 میں مالے ہوائی اڈے کے قریب ایک جزیرے کو 50 سال کے لیے لیز پر دینا شامل ہے۔ ان اقدامات نے انڈیا کے لیے سکیورٹی خدشات کو بڑھا دیا، کیونکہ چین کی بحر ہند میں بڑھتی ہوئی موجودگی انڈیا کے تزویراتی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

انڈیا کی تحمل کی پالیسی

مالدیپ کی "انڈیا آؤٹ” مہم اور چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات کے باوجود انڈیا نے مالدیپ کے ساتھ اپنے تعلقات میں تحمل کا مظاہرہ کیا۔ جب مالدیپ کی معیشت، جس کا حجم صرف 7.5 ارب ڈالر ہے، ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوئی، تو انڈیا نے اسے مالی امداد فراہم کی۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، اس امداد نے معیزو کو اپنی انڈیا مخالف پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مالدیپ کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "دھمکی دینے والا ملک 4.5 ارب ڈالر کی امداد فراہم نہیں کرتا۔” انڈیا کی اس پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مالدیپ کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے اور اسے اپنے تزویراتی دائرے میں رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

انڈیا نے مالدیپ کے کئی اہم منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، جن میں گریٹر میل کنیکٹیویٹی پروجیکٹ شامل ہے، جسے چین کے مقابلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، 1988 میں جب مالدیپ میں عبدالقیوم کی حکومت خطرے میں تھی، انڈیا نے فوج بھیج کر اسے بچایا تھا۔ 2018 میں جب مالدیپ کو پینے کے پانی کا بحران درپیش تھا، انڈیا نے فوری طور پر پانی فراہم کیا۔ یہ تاریخی واقعات انڈیا کی مالدیپ کے ساتھ گہری وابستگی کو ظاہر کرتے ہیں۔

معیزو کا یو ٹرن: ضرورت یا مجبوری؟

2023 میں صدر بننے کے بعد معیزو نے چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی، لیکن جب مالدیپ کی معاشی مشکلات بڑھیں اور انڈیا نے اسے ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے امداد دی، تو معیزو نے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش شروع کی۔ 2025 میں مالدیپ کے 60ویں یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنا اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ مودی کا یہ مالدیپ کا تیسرا دورہ ہے، اور وہ معیزو کے صدر بننے کے بعد مالدیپ کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہیں۔ منوج جوشی کا کہنا ہے کہ "معیزو نے اقتصادی مجبوری کی وجہ سے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے، نہ کہ اپنی مرضی سے۔ مالدیپ کی رائے عامہ اب بھی انڈیا کے خلاف ہے، اور معیزو نے اسی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کیا تھا۔”

تھنک ٹینک اننتا سینٹر کی سی ای او اندرانی باغچی کے مطابق، "مالدیپ انڈیا سے محبت نہیں کرے گا، لیکن انڈیا کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ سکیورٹی چیلنج نہ بنے۔” مالدیپ کی چین کے ساتھ بڑھتی قربت اور بحر ہند میں اس کی تزویراتی اہمیت انڈیا کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے۔ اگرچہ معیزو نے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کی پالیسیوں میں چین کی حمایت اور انڈیا مخالف جذبات اب بھی موجود ہیں۔

خلاصہ:

مالدیپ کی معاشی مجبوریوں اور انڈیا کی تزویراتی حکمت عملی نے معیزو کو "انڈیا آؤٹ” سے "انڈیا کے ساتھ” کی طرف موڑ دیا ہے۔ انڈیا کی مالی امداد اور مالدیپ کے جغرافیائی مقام کی اہمیت نے دونوں ممالک کے درمیان ایک نازک توازن قائم کیا ہے۔ تاہم، چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور مالدیپ کی رائے عامہ میں انڈیا مخالف جذبات ان تعلقات کو مستقل چیلنجز سے دوچار رکھتے ہیں۔ معیزو کا مودی کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملانا ایک سیاسی ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ تعلقات کس حد تک پائیدار ثابت ہوں گے۔ بحر ہند میں مالدیپ کی تزویراتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، انڈیا کے لیے اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنا ایک نازک لیکن ناگزیر چیلنج ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

انڈیاپاکستان جنگ میں 5 طیارے مار گرانے کے ٹرمپ کے دعویٰ نے مودی کو مشکل میں ڈالدیا

ایتھوپیا، انڈونیشیا اور لیبیا نے غزہ فلسطینیوں کو نکالنے کی صورت میں قبول کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی ہے

اردن میں اخوان المسلمین نے پابندی کے بعد خود کو تحلیل کردیا تحریک پر پابندی کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے