شام کے صوبہ السویدا میں دروز اور بدو کے مابین خونی جھڑپیں: غیر یقینی اور تناؤ کا نیا دور

صوبہ السویدا

شام کے صوبہ السویدا میں دروز اور بدو جنگجوؤں کے درمیان حالیہ خونی جھڑپوں نے علاقے میں کشیدگی اور غیر یقینی کی صورتحال کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ تنازعہ جولائی 2025 میں اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ڈمشق-السویدا روڈ پر ایک گاڑی چوری کے واقعے نے مسلح تصادم کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے بیانات میں دروز برادری کے عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ اپنی زمینوں پر واپس جائیں گے، چاہے اس کی قیمت ان کی جانوں سے ہی کیوں نہ چکانا پڑے۔

پس منظر

السویدا شام کا ایک اہم علاقہ ہے جہاں دروز برادری کی اکثریت آباد ہے، جو شام کی آبادی کا تقریباً 3 فیصد ہے۔ یہ برادری تاریخی طور پر اپنی خودمختاری اور مزاحمتی جذبے کے لیے جانی جاتی ہے۔ دوسری جانب، بدو قبائل بھی اس علاقے میں موجود ہیں، اور دونوں گروہوں کے درمیان وسائل اور اثر و رسوخ کے حوالے سے تناؤ رہتا ہے۔ حالیہ جھڑپوں سے قبل، دروز رہنماؤں اور نئی شامی حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے تھے، کیونکہ دروز رہنما، جیسے کہ زعیم ہجری، مبینہ طور پر بیرونی قوتوں (ایران اور اسرائیل) کی حمایت پر انحصار کر رہے تھے۔

جھڑپوں کی تفصیلات

  • محرک: تنازعہ کا آغاز ڈمشق-السویدا روڈ پر ایک مبینہ چوری کے واقعے سے ہوا، جو جلد ہی دروز اور بدو جنگجوؤں کے درمیان مسلح تصادم میں تبدیل ہو گیا۔
  • ہلاکتیں: اطلاعات کے مطابق، کم از کم 15 دروز افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک اہم رہنما بھی شامل تھا۔ بدو جنگجوؤں نے بھی متعدد حملوں میں حصہ لیا، جن میں براق اور الصورة الكبيرة کے قریب چیک پوسٹوں پر حملے شامل ہیں۔
  • فوجی مداخلت: شامی وزارت دفاع اور داخلہ نے درعا سے مداخلت کی کوشش کی، لیکن ان پر بھی حملے ہوئے، جس سے شہداء کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
  • دروز کا جوابی حملہ: دروز جنگجوؤں نے السویدا کے کئی علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، جو بدو قبائل کے قبضے میں تھے۔

موجودہ صورتحال

السویدا میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں، اور شامی حکومت نے علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے تنازعہ کو روکنے میں مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ قبائلی وساطت کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، کیونکہ دروز نے سیکورٹی فورسز پر دوبارہ حملہ کیا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، دروز برادری کو ایران اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، جو اس تنازعہ کو علاقائی طاقتوں کے تناظر میں مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔

غیر یقینی مستقبل

بیان “ہم واپس جائیں گے، چاہے السویدا ہمارا قبرستان بن جائے” دروز برادری کے عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی زمینوں اور شناخت کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ تاہم، یہ تنازعہ شام کے وسیع تر سیاسی اور سماجی مسائل کا عکاس ہے، جہاں قبائلی، مذہبی اور علاقائی تقسیم نے امن کے امکانات کو کمزور کیا ہے۔ اگر فوری طور پر کوئی ٹھوس مذاکراتی عمل شروع نہ ہوا، تو السویدا میں مزید خونریزی کا خطرہ ہے، جو نہ صرف مقامی آبادی بلکہ پورے خطے کے استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔

تجزیہ

یہ تنازعہ نہ صرف مقامی وسائل اور طاقت کے توازن کا معاملہ ہے بلکہ اس میں بیرونی قوتوں کی مداخلت بھی شامل ہے، جو اسے شام کے جاری بحران کا ایک اور پیچیدہ باب بناتی ہے۔ دروز برادری کی مزاحمت اور بدو قبائل کے ساتھ تناؤ شام کے سماجی ڈھانچے کی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں مرکزی حکومت کی کمزوری نے مقامی گروہوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے