بھارت کے نائب صدر جگ دیپ دھنکھر کے اچانک استفعیٰ نے سیاسی حلقوں میں مچائی کھلبلی

جگ دیپ دھنکھر

بھارت کے نائب صدر جگ دیپ دھنکھر نے 21 جولائی 2025 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دینے اور طبی مشورے کی پابندی کرنے کی وجہ سے استعفیٰ دیا، جیسا کہ انہوں نے صدر دروپدی مرمو کو لکھے گئے خط میں ذکر کیا۔ یہ استعفیٰ آئین کے آرٹیکل 67(a) کے تحت فوری طور پر نافذ العمل ہوا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، 74 سالہ دھنکھر، جو راجستھان سے تعلق رکھتے ہیں، 2022 سے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب بھارتی پارلیمنٹ نئے نائب صدر کا انتخاب کرے گی۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نائب صدر کا استفعیٰ حکومت کے اندرونی حلقوں میں اختلافات کا نتیجہ ہے مگر فی الوقت آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے اور شاید چندروز میں یہ معاملہ مکمل طور پر کھل کر سامنے آجائے گا کہ اس استفعیٰ کے پیچھے اصل کہانی کیا تھی؟

بھارت کے نائب صدر کے عہدے سے اچانک استعفیٰ نے سیاسی حلقوں میں خاصی ہلچل مچا دی ہے

سیاسی اثرات:

  1. پارلیمانی کارروائی پر اثر: دھنکھر راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے، اور ان کا استعفیٰ مون سون سیشن کے پہلے دن آیا، جو پارلیمانی بحثوں اور قانون سازی کے لیے اہم ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین یا کوئی عارضی چیئرمین ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے، لیکن یہ تبدیلی ایوان بالا کی کارروائی کے تسلسل کو متاثر کر سکتی ہے۔

2۔اپوزیشن کا ردعمل: اپوزیشن جماعتوں، جیسے کہ کانگریس اور آر جے ڈی، نے استعفیٰ کو "حیران کن” قرار دیا ہے۔ کانگریس رہنما پرمود تیواری نے دھنکھر سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی، جبکہ آر جے ڈی کے مرتیونجے تیواری نے سیاسی دباؤ کے امکانات کا ذکر کیا۔ ڈی ایم کے کے ترجمان نے بھی راجیہ سبھا میں دھنکھر کی کارکردگی پر تنقید کی، جس سے سیاسی تناؤ کی نشاندہی ہوتی ہے۔

3۔نئے نائب صدر کا انتخاب: بھارتی پارلیمنٹ کو اب جلد از جلد نئے نائب صدر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ آئین کے مطابق، نائب صدر کا انتخاب لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ارکان پر مشتمل الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس عمل میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور حکمت عملی اہم کردار ادا کرے گی، جو موجودہ سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

4۔بی جے پی پر دباؤ: کچھ اپوزیشن رہنماؤں، جیسے کہ کانگریس کے دانش علی، نے اشارہ دیا کہ دھنکھر کا استعفیٰ بی جے پی کے کچھ اعلیٰ رہنماؤں کے بیانات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال حکمراں جماعت کے اندرونی اختلافات یا حکومتی دباؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو بی جے پی کے لیے سیاسی چیلنج بن سکتی ہے۔

5۔علاقائی اور قومی سیاست: دھنکھر کا تعلق راجستھان سے ہے، اور ان کے استعفیٰ سے راجستھان کی سیاست پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ راجستھان کانگریس کے صدر گووند سنگھ دوتسرہ نے اسے "بدقسمتی” قرار دیا، لیکن ساتھ ہی دھنکھر کی پارلیمانی کارکردگی کو سراہا۔ اس سے علاقائی سطح پر سیاسی توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔

خلاصہ:

دھنکھر کا استعفیٰ صحت کے مسائل کے باوجود سیاسی دباؤ یا دیگر عوامل سے منسلک ہونے کے شبہات نے بھارتی سیاست میں بحث کو جنم دیا ہے۔ نئے نائب صدر کے انتخاب تک پارلیمانی کارروائی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات پر گہری نظر رکھی جائے گی۔ اگرچہ دھنکھر نے اپنے خط میں بھارت کی ترقی اور عالمی مقام پر فخر کا اظہار کیا، لیکن اس اچانک فیصلے نے سیاسی غیر یقینی کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

انڈیاپاکستان جنگ میں 5 طیارے مار گرانے کے ٹرمپ کے دعویٰ نے مودی کو مشکل میں ڈالدیا

ایتھوپیا، انڈونیشیا اور لیبیا نے غزہ فلسطینیوں کو نکالنے کی صورت میں قبول کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی ہے

فلسطینی صدر محمود عباس کاٹونی بلیئر سے ملاقات،حماس غزہ پر حکومت نہیں کرے گی اور ہتھیار بھی ہمارے حوالے کریں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے