نائن الیون کے بعد، دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکا ایک ایسی جنگی پالیسی کی راہ پر گامزن ہوا جس نے مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک کو نہ صرف سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا بلکہ لاکھوں انسانی جانیں بھی نگل لیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر شروع ہونے والی یہ مہم درحقیقت امریکی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنی، جس میں عراق کے تیل سے لے کر افغانستان میں اسٹریٹجک برتری تک سب کچھ شامل تھا۔
عراق: تباہی کے آغاز کی پہلی بڑی مثال
2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
تقریباً 3 لاکھ 15 ہزار افراد مارے گئے، جن میں 2 لاکھ 15 ہزار عام شہری تھے۔ بمباری، داخلی خانہ جنگی، فرقہ وارانہ کشیدگی اور داعش جیسی تنظیموں کا ابھرنا، سب کچھ اس جنگ کا نتیجہ تھا۔
افغانستان: امریکا کی طویل ترین جنگ
2001 میں افغانستان پر حملے کا مقصد القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنا تھا۔ مگر یہ جنگ 20 سال جاری رہی اور بالآخر 2021 میں امریکا کو وہاں سے فوجی انخلا کرنا پڑا۔
اس جنگ میں 70 ہزار سے زائد عام شہریوں سمیت 2 لاکھ 43 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے۔
پاکستان، جو افغانستان کا ہمسایہ ہے، اس جنگ کے براہ راست اثرات کا شکار ہوا۔ دہشت گردی، خودکش حملے، مہاجرین کا بوجھ اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں اس جنگ کے سائے میں ہوئیں۔
شام: خانہ جنگی میں عالمی مداخلت
2011 میں شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور 2014 سے امریکا اس تنازعے میں براہ راست ملوث ہو گیا۔
داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر امریکا نے کئی فضائی حملے کیے، جن میں عام شہری بھی مارے گئے۔
2021 تک اس جنگ میں تقریباً 2 لاکھ 69 ہزار افراد مارے گئے، جن میں 1 لاکھ 39 ہزار سے زائد عام شہری شامل تھے۔
یمن: خاموش مگر خونی مداخلت
یمن میں امریکی مداخلت نسبتاً کم سطح پر رہی مگر اس کے نتائج شدید تھے۔ ڈرون حملے، خفیہ آپریشنز اور اسلحے کی فراہمی کے ذریعے امریکا نے جنگ کو ہوا دی۔
اس خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ 12 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بے گناہ شہریوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
مجموعی خونی حساب
امریکی یونیورسٹیوں کے تحقیقی اداروں کے مطابق 2001 کے بعد سے ان جنگوں میں براہ راست 9 لاکھ 40 ہزار افراد مارے گئے۔
اگر بالواسطہ اموات (بیماری، بھوک، دوا کی کمی وغیرہ) کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 45 سے 47 لاکھ تک جا پہنچتی ہے۔
اقتصادی نقصان
ان جنگوں پر امریکا نے اب تک تقریباً 58 کھرب ڈالر یعنی 5800 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ یہ رقم اگر انسانی فلاح، صحت، تعلیم یا ماحولیات پر خرچ ہوتی تو دنیا کی شکل مختلف ہو سکتی تھی۔
نتیجہ: امن کے نام پر جنگ، اور جنگ کے نام پر تباہی
امریکا نے دہشت گردی، انسانی حقوق، جمہوریت اور عالمی سلامتی کے نام پر جو جنگیں چھیڑیں، ان کا نتیجہ خود امریکا کے لیے بھی مہنگا ثابت ہوا۔ مگر سب سے زیادہ قیمت ان ممالک کے عوام نے چکائی جنہیں “آزادی” دینے کے دعوے کے تحت ملبے میں دفن کر دیا گیا۔
آج عراق، افغانستان، شام اور یمن جیسے ممالک جنگ کے زخموں سے چور ہیں، جبکہ لاکھوں خاندان اپنوں کے بغیر، کھنڈرات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ دو دہائیاں ہمیں ایک تلخ سبق دیتی ہیں:
جنگ کبھی امن نہیں لاتی، وہ صرف بربادی، نفرت اور موت کا پیغام ہوتی ہے۔
11 ستمبر کو کیا ہوا تھا؟
گیارہ ستمبر: ایک دن، جس نے دنیا کو بدل دیا
11 ستمبر 2001 کو پیش آنے والا واقعہ تاریخ کا وہ اندوہناک لمحہ تھا جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کی سیاست، معیشت، سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگون پر ہونے والے دہشتگرد حملے کو آج بھی جدید تاریخ کا سب سے بڑا اور ہولناک دہشتگردی کا واقعہ مانا جاتا ہے۔
حملے کی تفصیل
منگل کی صبح، 11 ستمبر 2001 کو القاعدہ سے وابستہ 19 خودکش حملہ آوروں نے چار امریکی مسافر طیاروں کو اغوا کیا۔
- پہلا طیارہ امریکن ایئرلائنز فلائٹ 11 صبح 8:46 پر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرایا۔
- دوسرا طیارہ یونائیٹڈ ایئرلائنز فلائٹ 175 صرف 17 منٹ بعد جنوبی ٹاور سے ٹکرا گیا۔
- تیسرا طیارہ امریکن ایئرلائنز فلائٹ 77 صبح 9:37 پر پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع کا ہیڈکوارٹر) سے ٹکرایا۔
- چوتھا طیارہ یونائیٹڈ فلائٹ 93 مسافروں کی مزاحمت کے باعث ہدف پر نہ پہنچ سکا اور پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہوا۔
ان حملوں میں تقریباً 3,000 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں 90 سے زائد مختلف ممالک کے شہری شامل تھے۔
ذمہ داری کا دعویٰ اور اسامہ بن لادن
امریکا نے ان حملوں کا الزام القاعدہ پر عائد کیا، جس کی قیادت اس وقت اسامہ بن لادن کر رہا تھا۔ بعد ازاں، بن لادن نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول بھی کی۔ ان حملوں کو اسلام کے نام پر انجام دیا گیا، لیکن پوری دنیا کے اکثریتی مسلم علما نے ان کی مذمت کی اور انہیں انسانیت سوز قرار دیا۔
نائن الیون کے بعد کی دنیا
1. امریکہ کی جنگی پالیسیوں میں تبدیلی
- افغانستان پر حملہ (2001): امریکا نے نائن الیون کے صرف ایک ماہ بعد طالبان حکومت کو ہٹانے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، جس سے دنیا کی طویل ترین جنگ شروع ہوئی۔
- عراق پر حملہ (2003): امریکا نے دعویٰ کیا کہ عراق کے پاس تباہ کن ہتھیار ہیں، حالانکہ یہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا۔
2. ’وار آن ٹیرر‘ (دہشتگردی کے خلاف جنگ)
امریکا نے ایک عالمی مہم کا آغاز کیا جسے "وار آن ٹیرر” کہا گیا۔ اس کے تحت کئی ممالک میں خفیہ آپریشن، ڈرون حملے، اور مشتبہ افراد کی گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔
3. قانون سازی میں سختی
- پیٹریاٹ ایکٹ جیسے قوانین کے ذریعے حکومت کو نگرانی، فون ٹیپنگ اور گرفتاریوں کے وسیع اختیارات حاصل ہوئے۔
- مسلم برادری کو خاص طور پر نسلی امتیاز اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑا۔
4. اسلاموفوبیا میں اضافہ
نائن الیون کے بعد مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، حملوں، اور تعصب میں تیزی آئی۔ مسلمانوں کو "دہشتگردی” سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، جس سے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا رجحان بڑھا۔
عالمی سطح پر اثرات
- معاشی نقصان: ان حملوں کے فوری بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ گری، اور عالمی معیشت کو جھٹکا لگا۔
- سفری پابندیاں: فضائی سفر کے اصول سخت کیے گئے۔ ہر مسافر کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا، خصوصاً مسلم مسافروں کو۔
- خارجہ پالیسی میں تبدیلی: امریکہ نے دنیا بھر میں اپنی فوجی موجودگی بڑھائی، خاص طور پر مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ میں۔
اس واقعے سے سیکھنے کا پہلو
نائن الیون نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ تشدد اور انتہا پسندی نہ صرف عام انسانوں کو نشانہ بناتی ہے بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ اس واقعے کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ دنیا باہمی احترام، انصاف، اور مکالمے کی بنیاد پر مسائل کو حل کرے، مگر بدقسمتی سے جنگ، بمباری، اور قبضوں کا راستہ چنا گیا، جس سے مسائل مزید گمبھیر ہو گئے۔
نتیجہ
گیارہ ستمبر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نفرت، انتقام اور طاقت کے استعمال کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ آج، دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دنیا اس واقعے کے اثرات سے مکمل طور پر نہیں نکل سکی۔ اگر ہم واقعی امن چاہتے ہیں، تو ہمیں انصاف، تعلیم، اور باہمی سمجھوتے کی راہ اپنانی ہوگی — نہ کہ جنگ و جدال کی۔