دریائے سوات سانحہ: عام پاکستانی کی جان بے وقعت، اگر یہ جرنیل کا خاندان ہوتا تو کیا ریاست خاموش رہتی؟

Sawat

تحریر: نمائندہ خصوصی

سوات – خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں پیش آنے والا المناک واقعہ جہاں دریائے سوات کے اچانک سیلابی ریلے نے 17 سیاحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، 9 جاں بحق ہو گئے، 4 کو بچا لیا گیا، جبکہ باقی لاپتا ہیں—نے پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔ لیکن اس سانحے کے بعد جو سب سے اہم سوال سامنے آیا ہے وہ یہ ہے: کیا پاکستان صرف طاقتوروں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے؟

واقعے کے چشم دید گواہوں کے مطابق سیاح دریا کے خشک کنارے پر تصویریں لے رہے تھے کہ اچانک تیز بہاؤ نے انہیں گھیر لیا۔ لوگ چیختے چلاتے رہے، قریبی پہاڑی ٹیلے پر چڑھ کر مدد مانگتے رہے، لیکن کوئی سرکاری ریسکیو ٹیم بروقت نہ پہنچ سکی۔ مقامی افراد نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچانے کی کوشش کی، لیکن بے رحم لہریں انہیں روک نہ سکیں۔

ریاستی ردعمل: صرف معطلی، کوئی وقتی یا مستقل حکمتِ عملی نہیں

واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی، خوازہ خیلہ، اے ڈی سی ریلیف اور ریسکیو 1122 کے ضلعی انچارج کو معطل کر دیا۔ وزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم کے تحت ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، اور جاں بحق افراد کے ورثا کو 10 لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن عوام یہ سوال کر رہی ہے کہ:

“کیا جان جانے کے بعد ہی ریاست حرکت میں آتی ہے؟”

اگر یہی سانحہ کسی طاقتور شخصیت، فوجی جرنیل یا اعلیٰ سرکاری افسر کے خاندان کے ساتھ پیش آتا تو شاید ملک کا پورا فضائی بیڑہ، رینجرز، اور اسپیشل فورسز ہنگامی بنیادوں پر حرکت میں آجاتیں۔ ہیلی کاپٹرز فوراً موقع پر پہنچتے، اور ہر ممکن تدبیر اختیار کی جاتی۔

افغانستان کی مثال: وسائل کی کمی کے باوجود بروقت ہیلی کاپٹر آپریشن

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے پڑوس میں قائم طالبان کی حکومت، جو نہ صرف سفارتی سطح پر تنہا ہے بلکہ شدید اقتصادی پابندیوں کا شکار بھی ہے، انہوں نے حالیہ مہینوں میں اسی طرح کے سیلابی واقعات کے دوران ہیلی کاپٹرز بھیج کر درجنوں افراد کو بروقت بچایا۔

ایک حالیہ مثال میں، طالبان حکومت نے قندھار اور پکتیا میں سیلاب میں پھنسے افراد کو سرکاری ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ ان کے محدود وسائل کے باوجود انسانی جان کو ترجیح دی گئی—یہی وہ فرق ہے جس نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں غصہ بھر دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’پاکستان صرف اشرافیہ کے لیے ہے‘

ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر ہزاروں صارفین نے سوال اٹھایا ہے:

"اگر مرنے والے سیاحوں میں سے کوئی جنرل کا بیٹا ہوتا تو کیا ریسکیو اتنا تاخیر سے آتا؟”

"ہم 75 سال بعد بھی اتنے لاچار ہیں کہ چند لوگوں کو دریا سے نکالنے کے لیے کوئی سرکاری مشینری کام نہیں آتی۔”

"طالبان بہتر ہیں، کم از کم وہ انسانی جان کی قدر کرتے ہیں۔”

ایک صارف نے لکھا:

"ہم نے اربوں روپے فوج، NDMA، PDMA، اور دیگر اداروں کو دیے ہیں، لیکن جب عوام کو ضرورت پڑی تو وہ غائب تھے۔”

ریاستی ترجیحات پر سوالیہ نشان

پاکستان کا دفاعی بجٹ ہر سال کھربوں روپے کو چھو رہا ہے، لیکن عام شہری کے تحفظ، ریسکیو، اور پیشگی انتباہی نظام میں بہتری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جدید مواصلاتی نظام، ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور دیگر وسائل موجود ہونے کے باوجود ایک درجن سیاحوں کو وقت پر بچایا نہ جا سکا۔

یہ سوال مزید شدت سے اٹھ رہا ہے کہ:

کیا پاکستان کی ریاست صرف اشرافیہ، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی حفاظت کے لیے بنی ہے؟


نتیجہ:

دریائے سوات کا سانحہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی ترجیحات، نااہلی، اور عدم مساوات کا کڑا امتحان بن چکا ہے۔ جب تک عوامی جان کو وہی اہمیت نہیں دی جاتی جو طاقتوروں کو دی جاتی ہے، اس قسم کے سانحات بار بار ہوتے رہیں گے۔

ایک نظر ان خبروں پر بھی ڈالیے

تعليمى اداروں کی آزادی اور فکری وسعت

ایران میں آئی اسرائیلی جاسوسوں کی شامت 3 کو پھانسی اور 700 گرفتار

عائشہ قذافی کا ایرانی عوام کے نام انتہائی جذباتی پیغام ! ایران والو جھکنا نہیں، مغرب اور امریکہ نے میرے والد کو دھوکے سے مارا 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے