کیا عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات میں ایرانی ایٹمی اثاثوں پر حملے کافیصلہ ہوا تھا ؟

صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر

18 جون 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ملاقات نے عالمی سطح پر خاصی ہلچل مچائی۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر تھا۔ صرف چار روز بعد، 22 جون کو، امریکی فضائیہ نے ایران کے تین اہم ایٹمی تنصیبات—فردو، نطنز، اور اصفہان—پر "بنکر بسٹر” بموں سے حملہ کیا۔ اس حملے نے عالمی برادری میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اس کارروائی کا فیصلہ پاکستانی آرمی چیف اور ٹرمپ کی ملاقات میں طے پایا تھا؟ یہ مضمون اس ملاقات کے پس منظر، اس سے متعلق دعووں، اور اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔

ملاقات کا پس منظر

وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ہونے والی اس ملاقات کو ابتدائی طور پر ایک رسمی ظہرانے کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم، آئی ایس پی آر اور امریکی ذرائع کے مطابق، اس دو گھنٹے سے زائد طویل ملاقات میں متعدد اہم موضوعات پر بات چیت ہوئی، جن میں پاک-امریکہ تعلقات، انسداد دہشت گردی، تجارت، توانائی، اور ایران-اسرائیل تنازع شامل تھے۔ ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جنرل عاصم منیر "ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، شاید دوسروں سے بہتر” اور وہ موجودہ صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔

یہ بیان اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ نے اپنے سینئر مشیروں کے ساتھ ملاقات میں ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کی ابتدائی منظوری دی تھی۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران کی ایٹمی تنصیبات، خاص طور پر فردو، جو ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے، ممکنہ اہداف میں شامل تھیں۔ تاہم، ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے حملے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا اور وہ سفارتی حل کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیا ملاقات میں حملے کا فیصلہ ہوا؟

سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے دعویٰ کیا کہ جنرل عاصم منیر کی رضامندی کے بعد ہی ٹرمپ نے ایران پر حملے کی اجازت دی۔ ایک صارف نے لکھا کہ "عاصم منیر نے ٹرمپ سے ملاقات کی اور اگلے ہی دن ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملہ ہوا۔ سوال ہے کہ کس کی ایئر بیس استعمال ہوئی؟” ایک اور پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے اپنے فوجی اڈے امریکی حملوں کے لیے کرائے پر دیے۔ تاہم، یہ دعوے غیر مصدقہ ہیں اور کسی سرکاری بیان یا ٹھوس ثبوت سے تعاون یافتہ نہیں ہیں۔

دوسری جانب، کچھ ذرائع نے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے ٹرمپ کو ایران پر حملے کے بجائے سفارتی مذاکرات پر زور دیا۔ ایک ایکس پوسٹ کے مطابق، "عاصم منیر نے ٹرمپ کو قائل کیا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں، اور ٹرمپ نے حملے کا فیصلہ واپس لے لیا۔” اسی طرح، الجزیرہ کے ایک تجزیے میں کہا گیا کہ یورپی دباؤ اور پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات نے ٹرمپ کو حملے کا فیصلہ موخر کرنے پر مجبور کیا۔

پاکستان کی جانب سے حملے کے بعد سرکاری بیان میں امریکی کارروائی کی مذمت کی گئی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ یہ حملے "خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں” اور پاکستان ایران کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بیان اس تناظر میں اہم ہے کہ جنرل عاصم منیر نے مئی 2025 میں ایرانی فوجی قیادت سے ملاقات کی تھی، جو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستان کا ممکنہ کردار

پاکستان اور ایران کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو پاکستان کو اس تنازع میں ایک اہم اسٹریٹجک پوزیشن دیتی ہے۔ امریکی حملوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود، ایئر بیسز، یا انٹیلی جنس تعاون کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ پینٹاگون کے سابق مشیر مائیکل روبن نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا تعاون امریکی حکمت عملی کے لیے اہم ہو سکتا ہے، جیسا کہ 2003 کی عراق جنگ میں دیکھا گیا تھا۔ تاہم، پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس ملاقات کے ایجنڈے یا کسی فوجی تعاون کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

ایران کی جانب سے بھی دعویٰ کیا گیا کہ ان کی ایٹمی تنصیبات کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، کیونکہ انہوں نے حملوں سے قبل اپنے اہم آلات منتقل کر دیے تھے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکی حملوں کی منصوبہ بندی میں کوئی خفیہ معاہدہ یا انٹیلی جنس لیک شامل تھا۔

سفارتی پیچیدگیاں

یہ ملاقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک نئی پیچیدگی کا باعث بنی۔ ایک طرف پاکستان نے امریکی حملوں کی مذمت کی، لیکن دوسری طرف اس نے ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا، جو ایک دوہرے رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحدی اور مسلم بھائی چارے کی بنیاد پر تعلقات ہیں، جبکہ امریکہ کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک مفادات ہیں۔ سینیٹر پلوشہ بہرام نے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے یقیناً ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کے اسرائیل سے متعلق تحفظات شیئر کیے ہوں گے، کیونکہ اسرائیل م狩ہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تسلسل سے دیکھتا ہے۔

نتیجہ

موجودہ معلومات کی بنیاد پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا فیصلہ عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات میں طے پایا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں، لیکن کوئی ٹھوس ثبوت اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتا۔ ملاقات میں ایران-اسرائیل تنازع پر تفصیلی گفتگو ضرور ہوئی، اور ٹرمپ نے عاصم منیر کی ایران سے متعلق معلومات کی تعریف کی۔ تاہم، پاکستانی اور یورپی دباؤ نے ٹرمپ کو حملے کا فیصلہ موخر کرنے پر مجبور کیا ہو سکتا ہے، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا۔ پاکستان کی مذمتی پوزیشن اور اس کی سفارتی مشکلات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ اس تنازع میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کر رہا ہے۔ حتمی طور پر، اس سوال کا جواب ابہام میں ہے، اور مزید سرکاری معلومات کے بغیر کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے