"ڈیوڈ کوریڈور” کے نام سے حال ہی میں سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس پر گردش کرنے والے دعوؤں نے شام کی جغرافیائی سیاسی صورتحال کے بارے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان دعوؤں کے مطابق، اسرائیل مبینہ طور پر شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے یا اسے غیر مستحکم کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ مبینہ طور پر سویدا کو شام سے الگ کر کے ایک راہداری بنانا ہے، جسے "ڈیوڈ کوریڈور” کہا جا رہا ہے، جو اسرائیل کو شمالی عراق (اربیل) سے جوڑے گی۔ یہ دعویٰ بعض ایکس پوسٹس میں عبرانی میڈیا کے حوالے سے کیا گیا ہے، جن میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ احمد الشرع (جولانی) کے تعاون سے بنایا گیا اور اس کی تفصیلات جولانی کے مبینہ آذربائیجان دورے میں طے پائیں۔ تاہم، ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے ٹھوس شواہد کی کمی ہے، اور یہ مضمون اس موضوع کی گہرائی سے چھان بین کرتا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لئے ہمارے چینل میں شامل ہو نے کے لئے یہاں کلک کریں
تاریخی پس منظر
شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد، جب اسرائیل نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ عالمی قوانین کے تحت یہ علاقہ آج بھی شام کی سرزمین تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اسرائیل اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل نے شام میں متعدد فوجی کارروائیاں کی ہیں، جن کا مقصد عام طور پر ایرانی اثر و رسوخ یا حزب اللہ کے ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنا بتایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2007 میں اسرائیل نے شام کے مبینہ جوہری ری ایکٹر پر حملہ کیا تھا، اور 2013 سے 2017 کے درمیان متعدد فضائی حملوں میں ایرانی یا حزب اللہ کے اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
تاہم، "ڈیوڈ کوریڈور” یا شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے دعوؤں کا کوئی واضح تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ دعوے زیادہ تر حالیہ سوشل میڈیا پوسٹس اور کچھ غیر مصدقہ رپورٹس پر مبنی ہیں۔
"ڈیوڈ کوریڈور” کیا ہے؟
"ڈیوڈ کوریڈور” کے بارے میں دعوؤں کے مطابق، یہ ایک مبینہ راہداری ہے جو اسرائیل کو شام کے علاقے سویدا سے ہوتا ہوا شمالی عراق کے شہر اربیل تک جوڑے گی۔ ایکس پر پوسٹس کے مطابق، یہ منصوبہ اسرائیل کی طرف سے شام کے دروز علاقوں، خاص طور پر سویدا، کو شام سے الگ کرنے اور اسے ایک خودمختار یا اسرائیل کے زیر اثر علاقے کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ اسے بعض تجزیہ کاروں نے اسرائیل کی "عظیم اسرائیل” کی نظریاتی حکمت عملی سے جوڑا ہے، جس کے تحت اسرائیل اپنے اثر و رسوخ کو خطے میں پھیلانا چاہتا ہے۔
بعض رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سویدا میں دروز کمیونٹی کے تحفظ کے نام پر فوجی مداخلت کی ہے، جو مبینہ طور پر اس منصوبے کا حصہ ہو سکتی ہے۔ تاہم، ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کوئی سرکاری بیانات یا معتبر ذرائع سے شواہد نہیں ملے۔
احمد الشرع (جولانی) کا کردار
ایکس پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ احمد الشرع، جو شام کی عبوری حکومت کے سربراہ ہیں، نے مبینہ طور پر آذربائیجان کے دورے کے دوران اسرائیل کے ساتھ اس منصوبے پر اتفاق کیا۔ احمد الشرع، جو پہلے حیات تحریر الشام کے رہنما تھے، دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے عبوری صدر بنے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے استحکام اور اتحاد کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن "ڈیوڈ کوریڈور” سے متعلق دعوؤں نے ان کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
تاہم، ان دعوؤں کی کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی، اور یہ محض قیاسات یا پروپیگنڈے کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الشرع کی قیادت میں شام کی نئی حکومت خطے کے دیگر ممالک، جیسے سعودی عرب اور امریکہ، کے ساتھ مل کر شام کے استحکام کے لیے کام کر رہی ہے، اور اسرائیل کے ساتھ کسی خفیہ معاہدے کا امکان کم ہے۔
شام کی موجودہ صورتحال
دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام کی سیاسی اور عسکری صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔ احمد الشرع کی قیادت میں نئی عبوری حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں معیشت کی تعمیر نو، انفراسٹرکچر کی بحالی، اور فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ شامل ہیں۔ سویدا میں دروز کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ تناؤ کی اطلاعات ہیں، اور اسرائیل کی طرف سے اس علاقے میں فوجی کارروائیاں اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل خالد خیری نے خبردار کیا ہے کہ شام کو تشدد کے ایک نئے سلسلے کا سامنا ہے، جو اس کے پرامن اور جامع تبدیلی کے عمل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ شام کے سفیر نے اسرائیل کے حملوں کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اس کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی حکمت عملی
اسرائیل کی شام میں دلچسپی بنیادی طور پر اس کے سکیورٹی خدشات سے منسلک ہے۔ گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے بعد سے، اسرائیل شام کو اپنے لیے ایک ممکنہ خطرہ سمجھتا ہے، خاص طور پر ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے۔ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں، جن میں دمشق اور سویدا میں اہداف پر حملے شامل ہیں، مبینہ طور پر انہی خطرات کو کم کرنے کے لیے ہیں۔
تاہم، "ڈیوڈ کوریڈور” جیسے دعوے اسرائیل کی حکمت عملی کو ایک بڑے جغرافیائی سیاسی منصوبے سے جوڑتے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق، اسرائیل شام کی تقسیم یا اسے غیر مستحکم رکھنے کی پالیسی پر عمل کر سکتا ہے تاکہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔ لیکن یہ دعوے زیادہ تر قیاسات پر مبنی ہیں اور ان کی تصدیق کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔
عالمی ردعمل
شام میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر عالمی برادری کی طرف سے مخلوط ردعمل سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ نے شام کی خودمختاری کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ دوسری طرف، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کے سکیورٹی خدشات کی حمایت کرتے ہیں، لیکن شام کی تقسیم یا "ڈیوڈ کوریڈور” جیسے کسی منصوبے کی کھل کر حمایت نہیں کی گئی۔
ترکی، جو شام کا ایک اہم پڑوسی ہے، نے بھی شام کی تقسیم کے خدشات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کا بنیادی فوکس کرد علاقوں اور اپنی سرحدی سکیورٹی پر ہے۔
خلاصہ:
"ڈیوڈ کوریڈور” اور شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے دعوے فی الحال غیر مصدقہ ہیں اور زیادہ تر سوشل میڈیا پر مبنی ہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی شام میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں، لیکن ان کا مقصد بنیادی طور پر سکیورٹی خطرات، جیسے ایرانی اثر و رسوخ یا حزب اللہ، کو کم کرنا ہے۔ شام کی موجودہ غیر مستحکم صورتحال اور احمد الشرع کی نئی حکومت کے چیلنجز اس طرح کے دعوؤں کو ہوا دیتے ہیں، لیکن ان کی سچائی کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق اور معتبر ذرائع کی ضرورت ہے۔
شام کے مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اس کی خودمختاری اور استحکام کی حمایت کرے۔ اگرچہ "ڈیوڈ کوریڈور” جیسے دعوے جغرافیائی سیاسی کشمکش کا حصہ ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں فی الحال قیاسات کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔
مزید خبریں:
شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی کی انتہا پسندانہ مہم جوئی
انڈیاپاکستان جنگ میں 5 طیارے مار گرانے کے ٹرمپ کے دعویٰ نے مودی کو مشکل میں ڈالدیا
ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں