13 جون 2025 کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری اور فوجی اہداف پر کیے گئے فضائی حملوں نے مشرق وسطیٰ کے پہلے سے کشیدہ حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ ان حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی، اور چھ اہم جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایران نے ان حملوں کو "اعلان جنگ” قرار دیتے ہوئے "فیصلہ کن اور بھرپور” جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ یہ مضمون ان حملوں کے پس منظر، اثرات، اور ممکنہ نتائج کا جائزہ لیتا ہے۔
حملوں کا پس منظر
ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی برسوں سے جاری ہے، جو ایران کے جوہری پروگرام، حزب اللہ کی حمایت، اور علاقائی اثر و رسوخ کی کشمکش پر مبنی ہے۔ اسرائیل نے بارہا ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات اور سائنسدانوں کو نشانہ بنانے کی خفیہ کارروائیاں کی ہیں، لیکن 13 جون کے حملے اپنی شدت اور پیمانے کے لحاظ سے بے مثال ہیں۔
ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے نطنز کی جوہری تنصیب، تبریز ایئرپورٹ، اور شیراز کے فوجی اڈوں پر حملے کیے۔ ان حملوں میں چھ جوہری سائنسدانوں—فریدون عباسی، محمد مہدی طہرانچی، مطلبی زادہ، عبد الحمید منوچھر، احمد رضا ذوافقاری، اور سید امیر حسین فقہی—کی ہلاکت ہوئی۔ مزید برآں، خواتین اور بچوں سمیت پانچ شہری بھی مارے گئے۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے نطنز تنصیب پر حملے کی تصدیق کی ہے، جہاں ایران اپنی یورینیم افزودگی کی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
ایران کا ردعمل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حملوں کو "صہیونی دشمن کی طرف سے کھلا اعلان جنگ” قرار دیتے ہوئے قوم سے خطاب میں کہا کہ "ایران اس جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔” ایرانی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیکرچی نے اعلان کیا کہ "ہمارا ردعمل بھاری اور فیصلہ کن ہوگا۔” ایران نے فوری طور پر 100 ڈرونز پر مشتمل حملہ اسرائیل پر کیا، جسے اسرائیلی فوج نے ناکام بنانے کا دعویٰ کیا۔
ایران کی قومی سلامتی کمیٹی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا، اور سپریم لیڈر نے نئی عسکری قیادت کا تقرر کیا۔ میجر جنرل عبدالرحیم موسوی کو مسلح افواج کا چیف آف اسٹاف اور جنرل احمد وحیدی کو پاسداران انقلاب کا نیا کمانڈر نامزد کیا گیا۔ یہ تقرریاں ایرانی عزم کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ اس بحران میں اپنی فوجی صلاحیت کو برقرار رکھیں گے۔
اسرائیل کا مؤقف
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کارروائی ایران کے جوہری پروگرام اور اسرائیل کی بقا کے خطرے کو روکنے کے لیے ناگزیر تھی۔” انہوں نے مزید کہا کہ حملے کئی دن تک جاری رہ سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایرانی ڈرون حملوں کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا، اور ان کا فضائی دفاعی نظام "آئرن ڈوم” مکمل طور پر فعال ہے۔
عالمی ردعمل
ان حملوں نے عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ سعودی عرب، عمان، اقوام متحدہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور پاکستان نے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ "امریکا ان حملوں میں ملوث نہیں، لیکن اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو ہم اپنے اتحادی کا دفاع کریں گے۔”
ممکنہ نتائج
یہ حملے ایران-اسرائیل تنازعے کو ایک نئے اور خطرناک موڑ پر لے آئے ہیں۔ ایران کی جانب سے "فیصلہ کن جواب” کا اعلان علاقائی جنگ کے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اپنی پراکسی فورسز، جیسے حزب اللہ اور حوثی باغیوں، کے ذریعے اسرائیل کے خلاف غیر روایتی حملے کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، اسرائیل کی فضائی برتری اور امریکی حمایت اسے مزید جارحانہ کارروائیوں کی اجازت دے سکتی ہے۔
عالمی معیشت پر بھی اس تنازعے کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی تیل کی عالمی ترسیل کو متاثر کر سکتی ہے۔ مزید برآں، جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی کے مذاکرات، جو پہلے ہی تعطل کا شکار ہیں، مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔
نتیجہ
اسرائیلی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام اور فوجی قیادت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن ایران کا سخت ردعمل اور نئی قیادت کا تقرر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔ عالمی برادری کی جانب سے تحمل کی اپیلوں کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں عالمی قوتوں، خاص طور پر امریکا، روس، اور چین، کا کردار اہم ہوگا کہ آیا یہ تنازعہ محدود رہتا ہے یا پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔