مغربی سفارت کاروں کے مطابق، ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض مطالبات پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو اسرائیل-ایران تنازع کے تناظر میں سفارتی پیش رفت کی ایک امید افزا علامت ہو سکتی ہے۔ ایکس پر حالیہ پوسٹس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے قطر، سعودی عرب اور عمان کے ذریعے ٹرمپ سے رابطے کیے ہیں، جن میں اسرائیل پر فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے۔ جواب میں ایران نے جوہری مذاکرات میں لچک دکھانے کا عندیہ دیا ہے۔
تفصیلات:
- ایرانی ردعمل: ایرانی حکام نے واشنگٹن کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ ٹرمپ کے کچھ مطالبات، خاص طور پر جوہری پروگرام کی حدود اور نگرانی سے متعلق، پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں، لیکن بعض شرائط پر اختلافات برقرار ہیں۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب یورپی وزرائے خارجہ (برطانیہ، فرانس، جرمنی) آج جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کر رہے ہیں تاکہ جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور تنازع کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
- ٹرمپ کا موقف: ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے کہ آیا امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر فوجی کارروائی میں حصہ لے گا یا نہیں۔ تاہم، انہوں نے سفارتی مذاکرات کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا۔ مغربی سفارت کاروں کے مطابق، ایران کی طرف سے لچک کے اشارے ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی اور فوجی دباؤ کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں۔
- جنیوا مذاکرات: جنیوا میں ہونے والی ملاقاتوں کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو صرف پرامن مقاصد تک محدود کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری کے لیے سنجیدہ ہیں، لیکن ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکاف سے ملاقات سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ امریکہ کی اسرائیل کی حمایت کو تنازع کا حصہ سمجھتے ہیں۔
موجودہ صورتحال اور تناظر:
- تنازع کا تسلسل: اسرائیل اور ایران کے درمیان 13 جون 2025 سے شروع ہونے والا تنازع ساتویں روز بھی جاری ہے، جس میں اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے، جبکہ ایران نے جوابی میزائل اور ڈرون حملوں سے اسرائیل کے شہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔
- امریکی کردار: ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو "آسان ہدف” قرار دیتے ہوئے دھمکی دی تھی، لیکن ابھی تک کوئی حتمی فوجی فیصلہ نہیں کیا۔ امریکی فوجی اثاثوں کی مشرق وسطٰی میں تعیناتی بڑھائی گئی ہے، لیکن امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ فی الحال دفاعی نوعیت کی ہے۔
- سفارتی امکانات: ایران کی طرف سے مذاکرات کے لیے آمادگی کے اشارے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ فوجی دباؤ کے مقابلے میں سفارتی حل کو ترجیح دے رہا ہے۔ تاہم، اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے سفارت کاری کو مسترد کرتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
نتیجہ:
ایران کی طرف سے ٹرمپ کے مطالبات پر آمادگی ایک اہم پیش رفت ہے، جو تنازع کے سفارتی حل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاہم، اسرائیل کی جاری فوجی کارروائیاں اور ٹرمپ کا غیر یقینی فوجی موقف صورتحال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ جنیوا مذاکرات کے نتائج خطے میں امن و استحکام کے لیے فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ اس موضوع پر مزید تفصیلات یا کسی خاص پہلو پر بات کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم بتائیں!