جولائی 2025 میں کراچی کے گنجان آباد علاقے لیاری میں ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت کے منہدم ہونے سے 27 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس تباہ کن واقعے نے شہری منصوبہ بندی، غیر قانونی تعمیرات، اور حکومتی ناکامیوں کے سنگین مسائل کو اجاگر کیا۔ تاہم، اس سانحے کے درمیان ایک تین ماہ کی بچی کا معجزانہ طور پر زندہ بچ جانا امید کی ایک کرن ثابت ہوا۔ 53 گھنٹے تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن نے نہ صرف اس بچی کی جان بچائی بلکہ ریسکیو ٹیموں کی لگن اور مہارت کو بھی عیاں کیا۔ یہ رپورٹ اس واقعے کی وجوہات، اثرات، اور مستقبل کے لیے سبق کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔
واقعے کی تفصیلات
لیاری کے علاقے باغیچہ میں واقع یہ پانچ منزلہ عمارت دہائیوں پرانی تھی اور اسے تین سال قبل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے خطرناک قرار دیا تھا۔ عمارت کو صرف گراؤنڈ پلس ٹو فلورز کی اجازت تھی، لیکن غیر قانونی طور پر پانچ منزلیں تعمیر کی گئیں۔ ہر فلور پر تین پورشن بنائے گئے، جو کہ بلڈنگ کوڈز کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق، عمارت کی بنیادیں کمزور تھیں، اور بارشوں اور عدم توجہی نے اسے مزید مخدوش کر دیا تھا۔
واقعہ کا پس منظر:
- وقت اور مقام: یہ سانحہ جولائی 2025 کی صبح پیش آیا، جب عمارت اچانک زمین بوس ہو گئی۔
- ہلاکتیں: 27 افراد ہلاک ہوئے، جن میں ہندو کمیونٹی کے 16 افراد شامل تھے۔ ہلاک شدگان کی آخری رسومات اتوار کو ادا کی گئیں۔
- زخمی اور متاثرین: پانچ افراد کو زخمی حالت میں ملبے سے نکالا گیا، جبکہ ایک تین ماہ کی بچی معجزانہ طور پر زندہ بچ گئی۔
- ریسکیو آپریشن: 53 گھنٹے تک جاری رہنے والا آپریشن انتہائی مشکل حالات میں انجام دیا گیا۔ ریسکیو ٹیمیں، جن میں ایڈہی، چھیپا، اور دیگر رضاکار شامل تھے، نے ملبے کے نیچے سے زندہ افراد کو نکالنے کے لیے دن رات کام کیا۔
معجزاتی بقا: تین ماہ کی بچی
ریسکیو آپریشن کے دوران سب سے حیران کن لمحہ اس وقت آیا جب ٹیموں نے ملبے کے نیچے سے ایک تین ماہ کی بچی کو زندہ نکالا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، بچی کو ملبے میں ایک محفوظ جگہ پر پایا گیا، جہاں وہ اپنی ماں کے جسم سے لپٹی ہوئی تھی، جو بدقسمتی سے ہلاک ہو چکی تھیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ماں کے جسم نے بچی کو ملبے کے دباؤ سے بچایا۔ بچی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی حالت مستحکم رپورٹ کی گئی۔
یہ واقعہ نہ صرف ریسکیو ٹیموں کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی کی مضبوطی اور امید کی طاقت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اسے "لیاری کا معجزہ” قرار دیا، اور سوشل میڈیا پر بچی کی بقا کی کہانی وائرل ہو گئی۔
وجوہات کا تجزیہ
اس سانحے کی کئی بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سے زیادہ تر شہری منصوبہ بندی اور حکومتی نگرانی کی ناکامی سے جڑی ہیں:
- غیر قانونی تعمیرات: عمارت کی پانچ منزلیں غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھیں۔ مقامی بلدیاتی اداروں کی جانب سے بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ خلاف ورزی ممکن ہوئی۔
- مخدوش ڈھانچہ: عمارت کی بنیادیں کمزور تھیں، اور برسوں کی عدم توجہی نے اسے مزید خطرناک بنا دیا تھا۔ رہائشیوں نے بتایا کہ دیواروں میں دراڑیں اور چھتوں سے پانی کا رساؤ عام تھا۔
- حکومتی ناکامی: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عمارت کو خطرناک قرار تو دیا تھا، لیکن اسے خالی کرانے یا مرمت کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ رہائشیوں کو متبادل رہائش فراہم نہ کی گئی، جس کی وجہ سے وہ جان خطرے میں ڈال کر وہاں رہتے رہے۔
- معاشی مجبوریاں: لیاری کے زیادہ تر رہائشی کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دوسری جگہ منتقل ہونے کے وسائل نہیں تھے، جس نے انہیں خطرناک عمارتوں میں رہنے پر مجبور کیا۔
حکومتی ردعمل
سانحے کے بعد سندھ حکومت نے فوری اقدامات کا اعلان کیا:
- وزیراعلیٰ کا ایکشن: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خطرناک عمارتوں کی فوری نشاندہی اور خالی کرانے کا حکم دیا۔ انہوں نے ایس بی سی اے سے کراچی بھر میں مخدوش عمارتوں کی فہرست طلب کی۔
- ریسکیو آپریشن کی نگرانی: وزیر بلدیات سعید غنی نے ریسکیو آپریشن کی براہ راست نگرانی کی اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے۔
- تحقیقات کا آغاز: حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی، جو غیر قانونی تعمیرات اور حکومتی ناکامیوں کی ذمہ داری کا تعین کرے گی۔
- متاثرین کی امداد: ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا گیا، جبکہ زخمیوں کے علاج کے اخراجات حکومت نے اٹھانے کا وعدہ کیا۔
سماجی اور معاشی اثرات
یہ سانحہ لیاری کے رہائشیوں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ ہلاک شدگان میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد شامل تھے، جس نے پورے علاقے کو غم میں ڈبو دیا۔ ہندو کمیونٹی کے 16 افراد کی ہلاکت نے مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے، کیونکہ متاثرین میں تنوع پایا گیا۔
معاشی طور پر، لیاری جیسے کم آمدنی والے علاقوں میں رہائشیوں کے لیے متبادل رہائش کا بندوبست ایک بڑا چیلنج ہے۔ غیر قانونی تعمیرات اور مخدوش عمارتوں کا مسئلہ صرف لیاری تک محدود نہیں بلکہ کراچی کے دیگر علاقوں جیسے کورنگی، ملیر، اور گلشن اقبال میں بھی موجود ہے۔
مستقبل کے لیے سبق
اس سانحے سے کئی اہم اسباق ملے ہیں:
- بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد: غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔
- مخدوش عمارتوں کی نشاندہی: کراچی بھر میں خطرناک عمارتوں کی فوری سروے اور ان کے خاتمے یا مرمت کی ضرورت ہے۔
- متبادل رہائش: کم آمدنی والے طبقات کے لیے سستی رہائش کے منصوبوں پر کام تیز کیا جائے۔
- ہنگامی تیاری: ریسکیو آپریشنز کے لیے جدید آلات اور تربیت کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے نمٹا جا سکے۔
نتیجہ
لیاری کا یہ سانحہ ایک المناک یاد دہانی ہے کہ شہری منصوبہ بندی اور حکومتی نگرانی میں خامیوں کی قیمت انسانی جانوں سے ادا ہوتی ہے۔ 27 افراد کی ہلاکت نے لیاری کے رہائشیوں پر گہرا اثر چھوڑا، لیکن ایک تین ماہ کی بچی کا زندہ بچ جانا اس بات کی علامت ہے کہ بدترین حالات میں بھی امید باقی رہتی ہے۔ یہ واقعہ حکومتی اداروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ غیر قانونی تعمیرات اور مخدوش ڈھانچوں کے خلاف فوری اور موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر مناسب پالیسیز اور عمل درآمد پر توجہ دی جائے تو مستقبل میں ایسی تباہیوں سے بچا جا سکتا ہے۔