فلمستان اسٹوڈیو، جو 1943 میں اداکار اشوک کمار اور ششدر مکھرجی نے ممبئی میں قائم کیا تھا، بھارتی سنیما کی تاریخ کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ اس اسٹوڈیو نے اپنے عروج کے دور میں متعدد مشہور فلموں کی شوٹنگ کی میزبانی کی اور بالی ووڈ کے بڑے اسٹوڈیوز میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ تاہم، جولائی 2025 تک کی رپورٹس کے مطابق، یہ تاریخی اسٹوڈیو 183 کروڑ بھارتی روپے میں ایک مقامی رئیل اسٹیٹ کمپنی کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ اس جگہ پر اب 50 منزلہ لگژری اپارٹمنٹس بنانے کا منصوبہ ہے، جس کی مالیت 3000 کروڑ روپے لگائی گئی ہے۔ اس فروخت نے جہاں ترقی کے نئے امکانات کو جنم دیا، وہیں ال انڈین سائن ورکرز ایسوسی ایشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ فلمستان اسٹوڈیو کی تاریخ، اس کی فروخت کے اثرات، اور اس تنازع کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔
فلمستان اسٹوڈیو کی تاریخی اہمیت
فلمستان اسٹوڈیو کی بنیاد 1943 میں اشوک کمار اور ششدر مکھرجی نے رکھی تھی۔ ششدر مکھرجی، جو مشہور اداکاراؤں کاجول اور رانی مکھرجی کے دادا تھے، نے اس اسٹوڈیو کو بالی ووڈ کی سنہری تاریخ کا حصہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 4 ایکڑ پر پھیلا یہ اسٹوڈیو ممبئی کے گورگاؤں علاقے میں واقع تھا اور اپنے وقت میں جدید سہولیات کے ساتھ فلمی صنعت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
مشہور فلمیں اور پروجیکٹس
فلمستان اسٹوڈیو نے بھارتی سنیما کی کئی شاہکار فلموں کی شوٹنگ کی میزبانی کی، جن میں شامل ہیں:
- چل چل رے نوجوان (1944): ایک ہلکی پھلکی رومانوی فلم جو اس دور کی مقبول فلموں میں سے ایک تھی۔
- شکاری (1946): ایک ایڈونچر سے بھرپور فلم جس نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
- دو بھائی (1960): ایک سماجی ڈرامہ جو خاندانی رشتوں پر مبنی تھا۔
- ندیا کے پار (1948): ایک کلاسک فلم جو دیہی بھارت کی زندگی کو اجاگر کرتی تھی۔
- جگریتی (1954): قومی جذبے سے بھرپور ایک فلم جو آزادی کے بعد کے بھارت کی عکاسی کرتی تھی۔
- ناگن (1954): ایک افسانوی فلم جو اپنے میوزک اور کہانی کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
- تم سا نہیں دیکھا (1957): ایک رومانوی فلم جو اپنے گانوں کی وجہ سے آج بھی یاد کی جاتی ہے۔
- انارکلی (1953): ایک تاریخی رومانس جو مغلیہ دور کی عکاسی کرتی تھی۔
- شہید (1965): ایک حب الوطنی سے بھرپور فلم جو بھگٹ سنگھ کی زندگی پر مبنی تھی۔
- دل والے دلہنیا لے جائیں گے (1995): بالی ووڈ کی ایک آئیکونک فلم، جو آج بھی نئی نسل کے لیے ایک کلٹ کلاسک ہے۔
اس کے علاوہ، فلمستان نے متعدد ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات کی شوٹنگ کے لیے بھی اپنی جگہ فراہم کی، جس نے اسے فلمی صنعت کا ایک ورسٹائل مرکز بنایا۔
فروخت کا فیصلہ اور اس کے پس منظر
جولائی 2025 میں فلمستان اسٹوڈیو کو 183 کروڑ روپے میں ایک مقامی رئیل اسٹیٹ کمپنی کو فروخت کیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق، اس جگہ پر 50 منزلہ لگژری اپارٹمنٹس بنانے کا منصوبہ ہے، جس کی کل مالیت 3000 کروڑ روپے ہوگی۔ یہ منصوبہ ممبئی کے تیزی سے بڑھتے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا حصہ ہے، جہاں شہر کی قیمتی زمینوں کو رہائشی اور کمرشل پراجیکٹس کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
فروخت کی وجوہات
فلمستان اسٹوڈیو کی فروخت کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں:
- مالی دباؤ: فلمی صنعت کے ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے کے بعد روایتی اسٹوڈیوز کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجیز، جیسے گرین اسکرین اور ویژوئل ایفیکٹس، نے بڑے اسٹوڈیوز کی ضرورت کو کم کر دیا ہے۔
- زمین کی بڑھتی قیمت: ممبئی جیسے شہر میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ فلمستان کی 4 ایکڑ زمین ایک منافع بخش موقع تھی، جو رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز کے لیے پرکشش ثابت ہوئی۔
- مرمت کے اخراجات: پرانے اسٹوڈیوز کو برقرار رکھنے اور جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت تھی، جو شائد اسٹوڈیو کے مالکان کے لیے ممکن نہ تھی۔
ردعمل اور تنازع
فلمستان اسٹوڈیو کی فروخت نے فلمی صنعت سے وابستہ افراد اور تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل کو جنم دیا۔ خاص طور پر ال انڈین سائن ورکرز ایسوسی ایشن نے اس فیصلے پر سخت اعتراض کیا اور مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ سے ڈیل کو منسوخ کرنے کی اپیل کی۔ ان کا موقف ہے کہ فلمستان نہ صرف ایک اسٹوڈیو بلکہ بھارتی سنیما کی ثقافتی وراثت کا حصہ ہے، جسے محفوظ کیا جانا چاہیے۔
اہم اعتراضات
- ثقافتی ورثے کا نقصان: فلمستان اسٹوڈیو بالی ووڈ کی سنہری تاریخ کا ایک زندہ ثبوت تھا۔ اس کی جگہ لگژری اپارٹمنٹس بنانے سے ایک تاریخی ورثہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
- روزگار کے مواقع پر اثر: اسٹوڈیو کی بندش سے فلمی صنعت سے وابستہ ہزاروں ورکرز، جیسے کہ سیٹ ڈیزائنرز، لائٹنگ ٹیکنیشنز، اور دیگر عملے کے افراد، کے روزگار پر منفی اثر پڑے گا۔
- صنعت پر اثرات: فلمستان جیسے بڑے اسٹوڈیوز کی کمی سے فلم سازوں کو شوٹنگ کے لیے متبادل جگہوں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو پیداواری لاگت کو بڑھا سکتا ہے۔
حامی نقطہ نظر
دوسری جانب، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس فروخت سے شہر کی ترقی کو فروغ ملے گا:
- شہری ترقی: ممبئی جیسے گنجان آباد شہر میں رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے نئے اپارٹمنٹس کی ضرورت ہے۔ 50 منزلہ لگژری اپارٹمنٹس سے شہر کی اسکائی لائن کو جدید شکل ملے گی۔
- معاشی فوائد: 3000 کروڑ روپے کا یہ منصوبہ مقامی معیشت کو فروغ دے گا اور تعمیراتی سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔
- جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا: روایتی اسٹوڈیوز کی جگہ اب نئے، کم لاگت والے پروڈکشن طریقوں نے لے لی ہے، جس کی وجہ سے پرانے ڈھانچوں کی افادیت کم ہو گئی ہے۔
مستقبل کے لیے سبق
فلمستان اسٹوڈیو کی فروخت بھارتی سنیما اور شہری ترقی کے درمیان ایک اہم بحث کو جنم دیتی ہے۔ اس سے کئی اہم سوالات اٹھتے ہیں:
- ثقافتی ورثے کا تحفظ: کیا تاریخی مقامات کو ترقی کی دوڑ میں قربان کر دینا مناسب ہے؟ حکومت کو ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
- متوازن ترقی: شہری ترقی اور ثقافتی تحفظ کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا فلمستان جیسے اسٹوڈیوز کو میوزیم یا ثقافتی مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا تھا؟
- فلمی صنعت کی ضروریات: بالی ووڈ کی بدلتی ضروریات کے پیش نظر جدید اسٹوڈیوز کی تعمیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو نئی ٹیکنالوجیز اور کم لاگت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
نتیجہ
فلمستان اسٹوڈیو کی فروخت بھارتی سنیما کی تاریخ کے ایک باب کے خاتمے کی علامت ہے۔ یہ اسٹوڈیو نہ صرف فلموں کی شوٹنگ کا مرکز تھا بلکہ بالی ووڈ کے سنہری دور کی یادوں کا امین بھی تھا۔ اس کی جگہ لگژری اپارٹمنٹس کا منصوبہ جہاں شہری ترقی کی طرف ایک قدم ہے، وہیں اس نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔ ال انڈین سائن ورکرز ایسوسی ایشن کی اپیل اور عوامی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فیصلے پر بحث ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مہاراشٹرا حکومت کے اگلے اقدامات اس بات کا تعین کریں گے کہ کیا فلمستان کا ورثہ محفوظ ہو سکتا ہے یا یہ جدید ترقی کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔