ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ ،کیا پاکستان اسرائیل تسلیم کرے گا ؟

غزہ امن منصوبہ

غزہ امن منصوبہ : 29 ستمبر 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لیے ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ فوری جنگ بندی، یرغمالوں کی رہائی، حماس کی فوجی صلاحیتوں کے خاتمے، اور غزہ کی بحالی پر مرکوز ہے۔ اس منصوبے نے علاقائی اور عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے، خاص طور پر مسلم ممالک جیسے پاکستان، سعودی عرب، اور قطر سے، جن سے اس کی عملداری میں کردار ادا کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس مضمون میں ٹرمپ کے منصوبے کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سوال کا جواب دیا جائے گا کہ کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے۔

ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی منصوبہ: اہم نکات

ٹرمپ کا منصوبہ غزہ میں فوری امن اور استحکام لانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، اگر اسرائیل اور حماس اسے قبول کر لیں تو لڑائی فوری طور پر ختم ہو جائے گی۔ منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • فوری جنگ بندی: اسرائیلی فوج مرحلہ وار واپسی کرے گی، پہلے خان یونس، غزہ سٹی، اور رفح سے۔
  • یرغمالوں اور قیدیوں کی رہائی: حماس تمام اسرائیلی یرغمال رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
  • حماس کی فوجی صلاحیت کا خاتمہ: حماس کو سیاسی کردار سے محروم کرتے ہوئے اس کی فوجی طاقت ختم کی جائے گی، جس میں عرب اور مسلم ممالک کی مدد شامل ہو گی۔
  • غزہ کی بحالی: فلسطینیوں کے لیے ترقیاتی منصوبوں اور امداد کی فوری فراہمی، غزہ کو "انتہا پسندی سے پاک” علاقہ بنانے پر زور۔
  • بین الاقوامی استحکام فورس: عرب اور مسلم ممالک (جیسے پاکستان، سعودی عرب، قطر) پر مشتمل ایک فورس غزہ کی حفاظت اور استحکام کی ذمہ دار ہو گی۔
  • دو ریاستی حل کی طرف اشارہ: منصوبہ طویل مدتی امن کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، حالانکہ اس کا بنیادی فوکس غزہ پر ہے۔

یہ منصوبہ قطر میں جاری مذاکرات کا حصہ ہے، جہاں ترکی بھی شامل ہو رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسے قبول کیا ہے، لیکن مکمل فوجی انخلا سے انکار کیا ہے۔ حماس اس پر غور کر رہی ہے، جبکہ فلسطینیوں اور مغربی کارکنوں نے اسے "ایک فریقہ” قرار دیا کیونکہ اس میں فلسطینیوں کی مشاورت شامل نہیں۔

پاکستان کا اسرائیل تسلیم کرنے کا موقف

پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی واضح اور مستقل ہے: اسرائیل کی تسلیم فلسطینیوں کے مکمل حقوق کی بحالی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔ 1948 سے پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور وہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے۔ وزارت خارجہ نے حال ہی میں کہا کہ "جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، اسرائیل کی تسلیم کا کوئی امکان زیر غور نہیں۔”

اہم شرائط اور بیانات

  • دو ریاستی حل کی حمایت: پاکستان 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک متصل، خودمختار فلسطینی ریاست (مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر) کی حمایت کرتا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 2020 میں اقوام متحدہ میں اس شرط کو دہرایا تھا۔
  • موجودہ حکومت کا موقف: وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کے منصوبے کی خوش آمدید کی ہے اور دو ریاستی حل کی اہمیت پر زور دیا، لیکن اسرائیل کی تسلیم کی کوئی تجویز پیش نہیں کی۔ نائب وزیر اعظم نے غزہ میں امن فورس بھیجنے پر غور کا اشارہ دیا، لیکن یہ تسلیم سے الگ معاملہ ہے۔
  • داخلی اور علاقائی دباؤ: غزہ کی صورت حال کی وجہ سے پاکستان میں عوامی اور سیاسی حلقوں میں اسرائیل کے خلاف شدید جذبات ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کی طرف سے دباؤ ہے، لیکن پاکستان کی پالیسی فلسطینیوں کی حمایت پر قائم ہے۔

کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟

نظریاتی طور پر، اگر ایک آزاد، متصل فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں پر مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے، تو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے، کیونکہ یہ اس کی سرکاری شرط ہے۔ تاہم، ٹرمپ کا موجودہ منصوبہ اس شرط کو پورا نہیں کرتا، کیونکہ یہ بنیادی طور پر غزہ میں جنگ بندی اور بحالی پر مرکوز ہے، نہ کہ مکمل فلسطینی ریاست کے قیام پر۔

پاکستان کی پالیسی فلسطینیوں کی رضامندی اور انصاف پر منحصر ہے۔ عوامی احتجاج اور علاقائی اتحاد (خاص طور پر OIC کے ذریعے) اس فیصلے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ فی الحال، ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کی تسلیم کی راہ ہموار نہیں کرتا، کیونکہ یہ فلسطینیوں کے مکمل حقوق کی بحالی کے بغیر ہے۔

خلاصہ:

ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی منصوبہ ایک اہم پیش رفت ہے، جو فوری امن اور غزہ کی بحالی پر زور دیتا ہے۔ تاہم، یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کی مکمل شرائط کو پورا نہیں کرتا، جو پاکستان کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بنیادی شرط ہے۔ پاکستان اپنی پالیسی پر قائم ہے کہ اسرائیل کی تسلیم صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس لیے، موجودہ منصوبے کے تحت پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں، جب تک کہ فلسطینیوں کے حقوق مکمل طور پر بحال نہ ہوں۔

طالبان کی جانب سے افغانستان میں انٹرنیٹ پر پابندی ایک نیا چیلنج

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ حیات و خدمات

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

کیتھرین پیریز شکدم وہ یہودی جاسوس خوبصورت لڑکی جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے