ٹرمپ کا حیران کن اعلان: غزہ سے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی جلد متوقع

ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ سے جلد ہی مزید 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کرایا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس میں ارکانِ کانگریس کے ساتھ عشائیے کے دوران انہوں نے یہ بات کہی، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ ٹرمپ نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری کوششوں کی تعریف کی اور کہا، "ہم نے بیشتر یرغمالیوں کو بازیاب کرا لیا ہے۔ مزید 10 کو بہت جلد واپس لایا جائے گا، اور ہمیں امید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔”

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوحہ میں 6 جولائی 2025 سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات جاری ہیں۔ مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت ہو رہی ہے۔ تاہم، ایک فلسطینی ذریعے نے العربیہ/الحدث کو بتایا کہ اسرائیل نے ثالثوں کی پیش کردہ تجاویز، بشمول غزہ کے حوالے سے نقشوں اور انسانی امداد کے منصوبوں، پر تاحال کوئی واضح ردعمل نہیں دیا۔ ذرائع کے مطابق، جمعے تک یرغمالیوں کے تبادلے پر مذاکرات کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا۔

فلسطینی ذریعے نے واضح کیا کہ اسرائیل کا انسانی امداد سے متعلق تجاویز پر رویہ مبہم ہے، اور دوحہ میں موجود اسرائیلی وفد کی حیثیت محض علامتی ہے۔ اسی ذریعے نے حماس پر مذاکرات میں سستی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تاخیر کی اصل وجہ اسرائیل کی طرف سے ردعمل میں سستی ہے۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج کی یرغمالیوں کو طاقت سے چھڑانے کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب تبادلے کے لیے مزاحمت کی شرائط ماننا ہوں گی۔

ادھر، اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق، تل ابیب دوحہ مذاکرات میں پیش رفت کے لیے ایک سینئر حکام پر مشتمل دوسرا وفد بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم، وفد کے مینڈیٹ یا تجاویز کی تفصیلات ابھی واضح نہیں کی گئیں۔ اسرائیلی رضاکار اور یرغمالیوں کے لواحقین نے 21 جون 2025 کو لیکوڈ پارٹی کے صدر دفتر کے باہر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مظاہرہ کیا، جو ایران کے ساتھ جاری تنازع کے تناظر میں مزید اہمیت اختیار کر گیا۔

یہ مذاکرات نازک مرحلے میں ہیں، اور پیش رفت کا انحصار فریقین کے تعاون اور ثالثوں کی کوششوں پر ہے۔ عالمی برادری ان مذاکرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ یہ نہ صرف یرغمالیوں کی رہائی بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی اہم ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے