مئی 2025 میں، پاک-بھارت کے درمیان چار روزہ عسکری جھڑپیں ہوئیں—بھارتی حکام نے اسے پچھلے چند دہائیوں کی "سب سے سنگین لڑائی” قرار دیا۔ ہندوستان نے اس تنازع کی شروعات ایک بھارتی سیاحوں پر حملے کے ردعمل میں پاکستان پر حملے کر کے کی تھی، جبکہ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی دھماکوں کا جواب دیا ۔
بھارتی دعوے
بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف، لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے ان دعووں کا اظہار کیا کہ:
- چین نے پاکستان کو "لائیو ان پٹس” فراہم کیے، جن میں بھارتی فوج کی اہم نقل و حرکت، فضائی دفاع اور میدان جنگ کی لائیو معلومات شامل تھیں ۔
- جب پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کیے، تو ان کے تبادلہ خیال کے دوران پاکستان نے کہا کہ انہیں معلوم ہے بھارت کا "کِسی مخصوص ویکٹر” پر حملہ تیار ہے، کیونکہ چین نے انہیں پیشگی اطلاع دے رکھی تھی ۔
- سنگھ نے مزید کہا کہ یہ تنازع چین کے لیے "لائیو لیب” تھا، جہاں وہ اپنے جدید دفاعی نظام کی صلاحیتوں کو عملی طور پر ٹیسٹ کر سکتا ہے ۔
پاکستان کی تردید
پاک فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل ساحر شمشاد میرزا نے ان الزامات کو باقاعدہ طور پر مسترد کیا:
- انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خود اپنی فوجی صلاحیتوں پر انحصار کیا اور کسی بیرونی مدد یا سیٹلائٹ انٹیلی جنس کا استعمال نہیں کیا ۔
- انہوں نے مزید واضح کیا کہ اس تنازع کے دوران پاکستان نے کسی ایسے نظام،، بشمول چینی مدد، پر انحصار نہیں کیا ۔
تجزیہ اور عالمی ردعمل
- بھارت کی جانب سے چین پر پاکستان کو "لائیو عسکری اطلاعات” کی فراہمی کے الزامات نے خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کو مزید بڑھایا۔ اگر یہ ثابت ہو جائیں تو یہ خطے میں چین-پاکستان-بھارت کے تعلقات میں ایک نیا سنگ میل ہو سکتا ہے۔
- دوسری طرف، آزاد ذرائع اب تک چین کی جانب سے پاکستان کو اس سطح کی مدد فراہم کرنے کے قابل اعتماد ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
- عالمی سطح پر بھی تنازع کے دوران چین اور دیگر ممالک کی طرف سے ثالثی اور تناؤ میں کمی کے مطالبات سامنے آئے۔ مئی کے اوائل میں امریکہ سمیت متعدد ممالک نے بیک وقت بھارت اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ تحمل اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں ۔