اہلِ بیت رضی اللہ عنھم ایک ماڈل خانوادہ

ایل بیت

ثناخوانی کے محتاج وہ ہوتے ہیں جن کا تعارف نا ہو۔عظمت وہاں بیان کی جاتی ہے جہاں لوگ نا آشنا ہوں ،اہل بیتؓ کا تو معاملہ ہی مختلف ہے ان کی تعریف خود قرآن کرتا ہے ۔وہ انھیں سندِحق عطا کرتا ہے ۔ان کی پاکیزگی کا اعلان کرتا ہے ۔۔ نہ صرف یہ کہ خود رسول خداﷺان کے مؤمنِ کامل ہونے کی دلیل بیان فرماتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔(صحیح البخاری، 2 : 610)۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔(المستدرک للحاکم، 3 : 128)۔سیدنا ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ہم اہل بیت سے جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (صحیح ابن حبان ، الاحسان:9396 )

نبی کریمﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے ساتھ اعلان نبوت سے پہلے نکاح کیا اور یہ آپ ﷺ کا پہلا نکاح تھا آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اکثر اولادیں انہی کے بطن سے عطا فرمائیں جن میں بعض خصوصیات کی وجہ سے خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ زیادہ مشہور ہوئیں ۔ہم یہاں پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی عظمت سے متعلق چند احادیث پیش کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی والدہ محترمہ کون سی ہستی تھیں ۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلدؓ، فاطمہؓ بنت محمدؐ ،فرعون کی بیوی آسیہؓ بنت مزاحم اور مریم بنت عمرانؑ ہیں۔ (مسند احمد )۔نبی کریم ﷺ کے پاس جبریل امینؑ تشریف لائے اور فرمایا:(اے اللہ کے رسول !) جب وہ (خدیجہؓ ) آپ کے پاس آئیں تو انہیں میری اور اللہ کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتیوں والے ایک محل کی خوش خبری دے دیں جس میں نہ شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف۔(متفق علیہ)سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ نبیؓ نے فرمایا:عورتوں میں سب سے بہتر مریمؓ اور خدیجہؓ ہیں۔(متفق علیہ)۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؓ نے فرمایا:جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلدؓ، فاطمہؓ بنت محمدؐ ، فرعون کی بیوی آسیہؓ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ؑ ہیں۔(مسند احمدو ابن حبان)پہلی وحی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہؓ نے آپ کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: ’اللہ کی قسم!اللہ آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا۔ (صحیح بخاری) نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف سیدہ خدیجہؓ کو حاصل ہے۔نبی کریم ﷺ کی چاروں بیٹیاں حضرت فاطمہؓ ، حضرت رقیہؓ،حضرت زینبؓ اورحضرت ام کلثومؓ حضرت خدیجہؓ سے پیدا ہوئیں۔ آپ ؐ نے حضرت خدیجہؓ کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کی۔

نبی کریم ﷺ کی پاک نسل جن پاک ہستیوں سے دنیا میں قائم رہی وہ ہیں حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ،غالباََاسی سبب سے حضرت فاطمہؓ دوسری جگر گوشانِ رسولؐ سے زیادہ مشہور ہوگئیں اور آپ دونوں پاک اور بزرگ ہستیوں کے بارے میں نبی کریمﷺ کے جتنے ارشادات کتبِ احادیث میں موجود ہیں اتنی احادیث کسی اور صحابی کے متعلق موجود نہیں ہیں ۔ام المؤمنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ حضور ﷺیہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔(جامع الترمذی)نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔(جامع الترمذی)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔(مسند احمد )طبرانی اور بزار میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔(طبرانی)حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔(مسند احمد ،مستدرک) حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری)حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔(مسند احمد بن حنبلؒ ) ۔نبی رحمت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’ فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے ، جس نے اسے ناراض کیا اْس نے مجھے ناراض کیا۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم) ایک روایت میں ہے: وہ چیز مجھے تکلیف دیتی ہے جس سے اسے تکلیف پہنچی ہے (صحیح بخاری و صحیح مسلم)ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا : کیا تم اہل جنت اور مومنوں کی عورتوں کی سردار ہونے پر راضی نہیں ؟ تو وہ (خوشی سے) ہنس پڑیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)حضرت سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے ’’کہ فاطمہؓ اس طرح چلتی ہوئی آئیں گویا کہ نبی ﷺ چل رہے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا : خوش آمدید اے میری بچی ! پھر آپ (ﷺ) نے انہیں اپنی دائیں یا بائیں طرف بٹھا لیا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم )عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کی عادات و اطوار ،آپ کے اٹھنے بیٹھنے کی پروقار کیفیت اور سیرت میں فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا، جب وہ نبی ﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آپؐ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے پھر ان کو بوسہ لے کر اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب نبی ﷺان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپؐ کا بوسہ لیتیں اور آپؐ کو اپنی جگہ بٹھاتی تھیں۔(جامع الترمذی)

اسی طرح کے بہت ساری احادیث حضراتِ حسنینؓ کے سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جس سے ہر مومن ان کی عظمت و اہمیت کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علیؓ اور سیدنا حسین بن علیؓ کے بارے میں فرمایا: ’’ وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ (صحیح البخاری )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔ (سنن الترمذی)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے علیؓ ، فاطمہؓ ، حسنؓ اور حسینؓ کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔(صحیح مسلم)سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن صبح کو نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی توحضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماتشریف لائے، آپ ؐنے انھیں چادر میں داخل کرلیا۔ پھر حسینؓ (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہوگئے۔ پھر فاطمہؓ تشریف لائیں تو انھیں آپ ؐنے چادر کے اندر داخل کرلیا، پھر علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپؐ نے چادر کے اندر داخل کرلیا۔(صحیح مسلم)نبی کریم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (مسند احمد، عن ابی سعید الخدری) سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس فرشتے (جبریل ؑ )نے مجھے خوشخبری دی کہ بے شک حسن و حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (جامع الترمذی)حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدنا علیؓ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔ (مستدرک للحاکم) ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں (حسن و حسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تو اس سے محبت کر(ترمذی)

حضرت عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے : اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔ (مسنداحمد )حضرت عبداللہ بن عباسؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تمہیں جو نعمتیں کھلاتا ہے ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(الترمذی )حضرت ابوبکر الصدیقؓ نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو۔ (صحیح البخاری: 1573)سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے ان (حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی تو یقیناً اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا تو یقیناً اس نے مجھ سے بغض کیا۔(مسند احمد) ایک دفعہ نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اتر گئے اور انہیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے ، پھر آپ نے خطبہ شروع کردیا۔ (الترمذی)

یہ وہ مقدس گھرانا تھا جہاں اسلام کا سورج طلوع ہو کر چہار دانگ عالم نورِ توحید سے منور ہوا ۔اس گھرانے کا حق امت پر ہے کہ ہم ان کا احترام کرے ۔اپنی نسلوں تک ان کی سیرت ،ان کا نکھرا سچا پکا کردار پہنچائے اور اپنے معاشرے کے سامنے اس مقدس خانوادے کی خصوصیات بیان کریں تاکہ ہمارے ہاں کفر و شرک ،ظلم و تعدی اور ناانصافی کا خاتمہ ہو جائے ۔نبی پاک ﷺ نے گر چہ تمام تر صحابہ پر مکمل توجہ فرما کر انہیں ہمارے لئے بہترین نمونہ بنا کر چھوڑا مگر قرآن و حدیث سے جو مقام و مرتبہ اہل بیت عظامؓ کا معلوم ہوتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے شاید آج بھی اسی چیز کی کمی ہمارے سماج میں محسوس کی جا سکتی ہے کہ ہم نے اپنی اولاد تک صحابہ کبارؓ اور اہل بیتِ عظامؓ کی پاک سیرت پہنچانے کی کوشش نہیں کی یا پیغام تو پہنچایا مگر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی اگر ہم نے یہ دونوں کام کئے ہوتے تو شاید آج ہمارا سماج بڑی حد تک گناہوں اور ظلم و جبر سے پاک ہوتا ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو دیدی دھمکی

مسلمان ہونے کی تمنا رکھنے والی اٹلی کی غیر مسلم خاتون کا سوال

ہیروشیما پر ایٹمی حملے کی 80ویں برسی، جاپان کا پرامن دنیا کے لیے مؤثر پیغام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے