امریکہ نے آٹھ بھارتی کمپنیوں اور پانچ بھارتی شہریوں پر ایران سے تیل اور پیٹروکیمیکل تجارت کے الزام میں پابندیاں عائد کر دی

پانچ بھارتی شہریوں

امریکہ نے ایران کے ساتھ تیل، پیٹروکیمیکلز، اور پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں آٹھ بھارتی کمپنیوں اور پانچ بھارتی شہریوں پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ اقدام امریکی حکومت کی ایران کے خلاف جاری "زیادہ سے زیادہ دباؤ” (Maximum Pressure) پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایران کی توانائی کی آمدنی کو محدود کرنا ہے جو مبینہ طور پر دہشت گردی اور علاقائی عدم استحکام کی مالی معاونت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان پابندیوں کا اعلان امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (OFAC) نے 31 جولائی 2025 کو کیا۔

شامل بھارتی کمپنیوں کی تفصیل

امریکی محکمہ خارجہ اور OFAC نے مندرجہ ذیل آٹھ بھارتی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا:

  1. کنچن پولیمرز (چنئی): ایرانی پیٹروکیمیکل مصنوعات کی خریداری میں ملوث ہونے کا الزام۔
  2. الکیمیکل سلوشنز (ممبئی): 2024 میں تقریباً 84 ملین ڈالر سے زائد مالیت کی ایرانی مصنوعات کی خریداری کا الزام۔
  3. گلوبل انڈسٹریل کیمیکلز (ممبئی): جون 2024 سے جنوری 2025 تک لاکھوں ڈالر کی غیر قانونی تجارت میں ملوث۔
  4. جوپیٹر ڈائی کیم (ممبئی): ایرانی تیل اور پیٹروکیمیکلز کی تجارت میں شامل۔
  5. رامنکلال ایس گوسیلیا اینڈ کمپنی (ممبئی): ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا الزام۔
  6. پرزیسٹنٹ پیٹروکیم (دہلی): غیر قانونی تجارت کے نیٹ ورک کا حصہ ہونے کا الزام۔
  7. اینسا شپ مینجمنٹ (ممبئی): ایران سے وابستہ سمندری نقل و حمل نیٹ ورکس کے ساتھ تعلقات کی بنا پر پابندی۔
  8. شریجی جیمز (سورٹ): ایرانی تیل کی تجارت سے متعلق سمندری نیٹ ورکس میں ملوث ہونے کا الزام۔

یہ کمپنیاں مبینہ طور پر ایران کی توانائی کی صنعت سے وابستہ غیر قانونی نیٹ ورکس کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کر رہی تھیں، جو امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔

پابندیوں کا نشانہ بننے والے شہری

OFAC نے پانچ بھارتی شہریوں کو بھی اپنی خصوصی نامزد شہریوں (SDN) فہرست میں شامل کیا ہے۔ ان پر ایران کی توانائی اور سمندری تجارت میں سہولت کاری کا الزام ہے۔ یہ شہری ہیں:

  1. محمد رفیق حبیب اللہ
  2. جیکب کوریئن
  3. انل کمار پنکل نرائنن نائر
  4. پنکج نگجی بھائی پٹیل
  5. ایلیاس جعفر تمبے

ان افراد پر الزام ہے کہ وہ ایرانی تیل اور پیٹروکیمیکل کی تجارت کے لیے مالی اور لاجسٹک سہولیات فراہم کر رہے تھے۔

پابندیوں کے اثرات

امریکی پابندیوں کے نتیجے میں متاثرہ کمپنیوں اور افراد پر درج ذیل پابندیاں عائد کی گئی ہیں:

  • مالیاتی پابندیاں: متاثرہ کمپنیوں اور افراد کے امریکی دائرہ اختیار میں موجود تمام اثاثہ جات منجمد کر دیے گئے ہیں۔
  • تجارتی پابندیاں: امریکی اداروں، افراد، یا کمپنیوں کو ان سے کسی بھی قسم کا لین دین، سرمایہ کاری، یا تجارتی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
  • بین الاقوامی پابندیاں: یہ کمپنیاں اور افراد امریکی پروکیورمنٹ پروگرامز یا عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔
  • ویزا پابندیاں: SDN فہرست میں شامل افراد کو امریکی ویزا حاصل کرنے یا امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

یہ پابندیاں متاثرہ کمپنیوں کے لیے عالمی مالیاتی نظام تک رسائی کو شدید محدود کر دیں گی، جس سے ان کی کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوں گی۔

پس منظر: امریکی "زیادہ سے زیادہ دباؤ” پالیسی

امریکہ کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ” پالیسی کا مقصد ایران کی تیل برآمدات کو مکمل طور پر روکنا اور اس کی مالیاتی آمدنی کو محدود کرنا ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران اپنی توانائی کی آمدنی کو دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت، بیلسٹک میزائل پروگرام، اور علاقائی تنازعات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت، امریکہ نہ صرف ایران بلکہ اس کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اور اداروں پر بھی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ایران کی تیل اور پیٹروکیمیکل تجارت کو نشانہ بنانے کے لیے OFAC نے عالمی سطح پر ایک وسیع نیٹ ورک کی نگرانی کی، جس میں ایشیائی، یورپی، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں۔ بھارتی کمپنیوں اور شہریوں پر پابندیوں کا فیصلہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

بھارت پر ممکنہ اثرات

ان پابندیوں کے بھارت پر کئی ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:

  • معاشی اثرات: متاثرہ کمپنیوں کی عالمی مالیاتی نظام تک رسائی محدود ہونے سے بھارت کی پیٹروکیمیکل اور توانائی کی صنعت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ کمپنیاں بھارت کی مجموعی برآمدات کا ایک اہم حصہ ہیں، اور ان کی بندش سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
  • سفارتی کشیدگی: بھارت اور امریکہ کے درمیان معاشی اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ بھارت، جو امریکہ کا اہم اتحادی ہے، ان پابندیوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھ سکتا ہے۔
  • توانائی کی پالیسی پر اثرات: بھارت ایران سے تیل کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں یہ انحصار کم ہوا ہے، لیکن ان پابندیوں سے بھارت کو اپنی توانائی کی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑ سکتی ہے، جس سے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
  • بین الاقوامی ساکھ: ان پابندیوں سے بھارت کی عالمی مالیاتی نظام میں شفافیت اور اعتماد پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو متاثر کر سکتا ہے۔

آگے کا راستہ

امریکی حکومت نے واضح کیا ہے کہ یہ پابندیاں اصلاحی مقاصد کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ متاثرہ کمپنیاں اور افراد OFAC کے ری کنسیڈریشن پروسیجر کے ذریعے اپیل دائر کر کے SDN فہرست سے ہٹائے جانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت سے مکمل طور پر دستبردار ہو چکے ہیں۔

بھارتی حکومت کو اب اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک متوازن حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل اقدامات شامل ہو سکتے ہیں:

  • متاثرہ کمپنیوں کے ساتھ مل کر ان کے کیس کو OFAC کے سامنے پیش کرنا۔
  • ایران سے توانائی کی درآمد کے متبادل ذرائع تلاش کرنا، جیسے کہ سعودی عرب، عراق، یا روس سے تیل کی خریداری۔
  • عالمی سطح پر اپنی توانائی کی پالیسی کو مضبوط کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنا۔

نتیجہ

امریکہ کی جانب سے آٹھ بھارتی کمپنیوں اور پانچ شہریوں پر عائد پابندیاں ایران کے خلاف جاری معاشی جنگ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ پابندیاں ایران کی تیل اور پیٹروکیمیکل تجارت کو محدود کرنے کی کوشش ہیں، لیکن ان کے بھارت پر بھی گہرے معاشی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بھارت کو اب اپنی توانائی کی پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کو متوازن کرنے کے لیے احتیاط سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی معیشت اور عالمی ساکھ کو نقصان سے بچایا جا سکے۔

یہ اقدامات عالمی سطح پر ایران کے تباہ کن مالیاتی نیٹ ورک کو کمزور کرنے اور بین الاقوامی اداروں کو معاملے میں شفافیت کی راہ دکھانے کی کوشش ہیں۔ بھارت کو اب اپنی انرجی پالیسی اور خارجی تجارت میں احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو دیدی دھمکی

مسلمان ہونے کی تمنا رکھنے والی اٹلی کی غیر مسلم خاتون کا سوال

وال اسٹریٹ جرنل” کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا 10 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے