انجینئر محمد علی مرزا مفتن یامحقق ؟

انجینئر محمد علی

انجینئر محمد علی مرزا پاکستان کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا، بالخصوص یوٹیوب، کے ذریعے مذہبی موضوعات پر گفتگو کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے ایک میکانیکل انجینئر ہونے کے باوجود، وہ اپنی مذہبی لیکچرز اور "قرآن و سنت ریسرچ اکیڈمی” کے سربراہ کے طور پر زیادہ مشہور ہیں۔ ان کی شہرت کا بنیادی سبب ان کے غیر روایتی اندازِ بیان، حساس دینی مسائل پر بحث، اور مختلف مکاتبِ فکر کے مابین اتحاد کی دعوت ہے۔ تاہم، ان کے نظریات اور بیانات نے انہیں ایک متنازعہ شخصیت بھی بنایا ہے، جس کی وجہ سے ان پر فتنہ پھیلانے، صحابہ کرام کی توہین، اور غیر مستند دینی تعلیمات کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ یہ مضمون انجینئر محمد علی مرزا کی زندگی، ان کے نظریات، ان پر ہونے والی تنقید، اور ان کے سماجی اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیمی پس منظر

انجینئر محمد علی مرزا 4 اکتوبر 1977ء کو پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، مرزا ارشد محمود، ایلائیڈ بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ محمد علی مرزا نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET)، ٹیکسلا سے میکانیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پیشہ ورانہ طور پر، وہ پنجاب حکومت کے ایک سرکاری محکمے میں 19ویں گریڈ کے انجینئر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، لیکن بعد میں انہوں نے اپنی عوامی شہرت کی وجہ سے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ انہوں نے روایتی دینی تعلیم کسی مدرسے سے حاصل نہیں کی، جو ان کے ناقدین کے لیے ایک اہم نکتہ تنقید ہے۔ اس کے بجائے، وہ خود کو ایک محقق کے طور پر پیش کرتے ہیں جو قرآن و حدیث پر مبنی تحقیق کے ذریعے دینی مسائل کی تشریح کرتے ہیں۔

مذہبی لیکچرز اور یوٹیوب کی مقبولیت

محمد علی مرزا نے 2009ء میں اپنا یوٹیوب چینل "720085” کے نام سے شروع کیا، اور بعد میں 2014ء میں اپنا موجودہ چینل بنایا، جو اب لاکھوں فالوورز رکھتا ہے۔ ان کی ویڈیوز کو کروڑوں بار دیکھا جا چکا ہے، جو ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے لیکچرز کا انداز سادہ، عام فہم، اور اکثر طنزیہ ہوتا ہے، جو خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ اپنی بات کو قرآن و حدیث کے حوالوں سے تقویت دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے نظریات کو کتاب و سنت کے مطابق پیش کرتے ہیں۔

ان کے لیکچرز کے موضوعات متنوع ہیں، جن میں معاشرتی مسائل (مثلاً عورتوں کے حقوق، جائیداد میں حصہ، اور تشدد)، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور تاریخی واقعات (مثلاً واقعہ کربلا) شامل ہیں۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے پرجوش داعی ہیں اور تکفیری سوچ کی سخت مخالفت کرتے ہیں، جو ان کے حامیوں کے نزدیک ان کی ایک بڑی خوبی ہے۔

نظریات اور دعوے

محمد علی مرزا کے نظریات کو سمجھنے کے لیے ان کے چند اہم دعووں پر نظر ڈالنا ضروری ہے:

  1. اتحاد امت: وہ مختلف مکاتبِ فکر کے مابین اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور فرقہ واریت کو امت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام مسالک کے پیروکار آپس میں بھائی ہیں اور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرنا چاہیے۔
  2. صحابہ کرام پر گفتگو: ان کے لیکچرز میں صحابہ کرام، خصوصاً حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر کے بارے میں تاریخی واقعات کی تشریح متنازعہ رہی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تاریخی حقائق کو پیش کرتے ہیں، لیکن ناقدین ان پر صحابہ کی توہین کا الزام لگاتے ہیں۔
  3. غیرمسلموں کے بارے میں نقطہ نظر: انہوں نے ایک ویڈیو میں قادیانیوں کو یہود سے بدتر سمجھنے کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان پر قادیانیت کی حمایت کا الزام لگا۔ تاہم، وہ واضح کرتے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم مانتے ہیں۔
  4. علماء پر تنقید: وہ روایتی علماء پر تنقید کرتے ہیں، ان کے بقول علماء حقائق کو چھپاتے ہیں یا عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس تنقید کو ان کے حامی ایک جرات مندانہ اقدام سمجھتے ہیں، جبکہ ناقدین اسے علماء کی توہین قرار دیتے ہیں۔
  5. مذہبی خدمات سے مالی فائدہ نہ اٹھانا: محمد علی مرزا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی مذہبی خدمات سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھاتے اور اپنی تنخواہ سے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ یوٹیوب سے آمدنی حاصل کرتے ہیں، جو ان کے دعوے کے منافی ہے۔

تنازعات اور تنقید

محمد علی مرزا کے نظریات اور بیانات نے انہیں متعدد تنازعات میں مبتلا کیا ہے۔ ذیل میں ان پر عائد چند اہم الزامات اور تنقید کا جائزہ دیا گیا ہے:

1. صحابہ کرام کی توہین

ان کے ناقدین، خصوصاً اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے علماء، ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام، بالخصوص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں بدعتی یا باغی قرار دیتے ہیں۔ بعض فتویٰ جات میں ان کے نظریات کو اہل سنت کے منہج سے انحراف قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، دارالعلوم دیوبند کی طرف سے جاری ایک فتوے میں انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا گیا۔

2. غیر روایتی دینی تعلیم

چونکہ محمد علی مرزا نے کسی مدرسے سے روایتی دینی تعلیم حاصل نہیں کی، اس لیے ان کے ناقدین ان کے علم کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ زبیر جیسے علماء نے ان کے تحقیقی مقالوں، جیسے کہ "واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر”، کو غیر مستند قرار دیا اور کہا کہ وہ دینی علوم کی بنیادی اصطلاحات سے ناواقف ہیں۔

3. قادیانیت سے متعلق الزامات

ان کی ایک ویڈیو میں قادیانیوں کے بارے میں نرم رویہ رکھنے کی وجہ سے ان پر قادیانیت کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔ اگرچہ انہوں نے واضح کیا کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم مانتے ہیں، لیکن یہ تنازعہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا۔

4. مذہبی منافرت کا الزام

مئی 2020ء میں جہلم پولیس نے انہیں ایک وائرل ویڈیو کی بنیاد پر گرفتار کیا، جس میں ان پر مذہبی منافرت پھیلانے اور اشتعال انگیز گفتگو کا الزام تھا۔ سیکشن 153-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، لیکن وہ 6 مئی 2020ء کو ضمانت پر رہا ہو گئے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کی ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

5. قاتلانہ حملہ

مارچ 2021ء میں جہلم میں ان پر ایک نوجوان نے چاقو سے حملہ کیا، جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ حملہ آور کا الزام تھا کہ محمد علی مرزا لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس واقعے نے ان کے نظریات کی حساسیت کو مزید اجاگر کیا۔

6. توہین مذہب کا مقدمہ

اپریل 2023ء میں ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295-C کے تحت توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا، جس میں ان پر پیغمبر اسلام کی توہین اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے قانونی فیصلے کو کمزور کرنے کا الزام تھا۔ اس مقدمے نے ان کی عوامی شبیہ کو مزید متنازعہ بنایا۔

سماجی اثرات

محمد علی مرزا کے لیکچرز نے پاکستانی معاشرے، خصوصاً نوجوانوں، پر گہرا اثر ڈala ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ حساس مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں اور دینی تعلیم کو آسان انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ عورتوں کے حقوق، جائیداد میں حصہ، اور معاشرتی برائیوں جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، جو روایتی علماء کے لیکچرز میں کم ہی زیر بحث آتے ہیں۔

دوسری طرف، ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے لیکچرز سے فرقہ وارانہ تناؤ بڑھتا ہے اور عوام میں علماء کے خلاف بدگمانی پھیلتی ہے۔ ان کے غیر روایتی انداز اور خود ساختہ تحقیق کو بعض علماء "دینی معاملات میں انجینئرنگ” قرار دیتے ہیں، جو ان کے نزدیک گمراہی کا باعث ہے۔

سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری اور حملے جیسے واقعات کے بعد عوامی ردعمل منقسم رہا۔ کچھ لوگوں نے ان کی حمایت میں آواز اٹھائی، جیسے کہ اداکار حمزہ علی عباسی اور اینکر شفاعت علی، جبکہ دیگر نے ان کی گرفتاری کو درست قرار دیا۔

جائزہ اور تجزیہ

محمد علی مرزا کی شخصیت اور نظریات پر بحث کرتے وقت چند اہم نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:

  1. محقق یا مبلغ؟: محمد علی مرزا خود کو ایک محقق کہتے ہیں، لیکن ان کی تحقیق کا دائرہ کار بنیادی طور پر ترجمہ شدہ کتابوں اور ان کی ذاتی تشریحات تک محدود ہے۔ وہ عربی زبان اور دینی علوم کی بنیادی اصطلاحات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، جو ان کی تحقیق کی صداقت پر سوال اٹھاتا ہے۔
  2. متنازعہ بیانات: ان کے بیانات کا انداز طنزیہ اور بعض اوقات اشتعال انگیز ہوتا ہے، جو ان کے ناقدین کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اگرچہ وہ اپنی بات کے حق میں قرآن و حدیث سے حوالہ جات دیتے ہیں، لیکن ان کی تشریحات اکثر روایتی تفاسیر سے مختلف ہوتی ہیں۔
  3. نوجوانوں پر اثر: ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کا عام فہم انداز اور سوشل میڈیا کی طاقت ہے۔ وہ روایتی علماء کے مقابلے میں زیادہ قابل رسائی ہیں، جو انہیں نوجوانوں کے لیے پرکشش بناتا ہے۔ تاہم، ان کے نظریات کی غیر تصدیق شدہ نوعیت عوام کو گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔
  4. اتحاد یا انتشار؟: اگرچہ وہ اتحاد امت کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کے بیانات سے بعض اوقات فرقہ وارانہ تناؤ بڑھتا ہے، کیونکہ وہ مختلف مکاتبِ فکر کے اکابرین پر تنقید کرتے ہیں۔

نتیجہ

انجینئر محمد علی مرزا ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے غیر روایتی انداز اور حساس دینی موضوعات پر گفتگو کی وجہ سے پاکستان میں ایک اہم عوامی شخصیت بن چکے ہیں۔ وہ نہ تو روایتی مفتی ہیں اور نہ ہی مدرسے سے فارغ التحصیل عالم، بلکہ ایک خود ساختہ محقق ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے نظریات پھیلاتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں ایک جرات مند اور منطقی مبلغ سمجھتے ہیں، جبکہ ناقدین ان کے بیانات کو فتنہ انگیز اور غیر مستند قرار دیتے ہیں۔

ان کے نظریات کی صداقت جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی باتوں کو قرآن و سنت اور مستند علماء کے فتویٰ جات کی روشنی میں پرکھا جائے۔ ان کی گرفتاری، قاتلانہ حملے، اور توہین مذہب کے مقدمات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے نظریات معاشرے میں گہرے تقسیم کا باعث بنے ہیں۔ لہٰذا، ان کے لیکچرز کو سننے سے پہلے احتیاط برتنا اور مستند علماء سے رجوع کرنا مناسب ہے، تاکہ دینی معاملات میں گمراہی سے بچا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے