سنی عرب مسلم حکمرانوں کے کردار کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی نہ ہونے کے تناظر میں دیکھنا ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی معاملہ ہے۔ یہ کہنا کہ جنگ بندی نہ ہونے میں براہ راست ان کا "ہاتھ” ہے، ایک آسان سا نتیجہ ہوگا، کیونکہ اس تنازعہ میں متعدد عوامل اور فریقین شامل ہیں۔ تاہم، سنی عرب حکمرانوں کی پالیسیوں، ترجیحات، اور فیصلوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر جنگ بندی کی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔ آئیے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں:

- سنی عرب حکمرانوں کی حماس کے ساتھ دوری کی وجوہات
سنی عرب ممالک (جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، اور اردن) کی حماس کے ساتھ دوری یا مخالفت نے جنگ بندی کے عمل کو پیچیدہ کیا ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات یہ ہیں:
الف. نظریاتی اختلافات (اخوان المسلمون سے تعلق):
حماس کا نظریاتی تعلق اخوان المسلمون سے ہے، جو ایک ایسی تحریک ہے جسے کئی سنی عرب حکومتیں اپنی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
مصر: 2013 میں اخوان المسلمون کی حکومت (محمد مرسی) کے خاتمے کے بعد سے مصر نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ چونکہ حماس اخوان کی فلسطینی شاخ سمجھی جاتی ہے، مصر اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب: یہ ممالک بھی اخوان کی حمایت کرنے والے گروہوں کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنی بادشاہتوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ حماس کی حمایت سے گریز ان کی داخلی استحکام کی پالیسی کا حصہ ہے۔
نتیجہ: یہ نظریاتی مخالفت سنی عرب ممالک کو حماس کے ساتھ تعاون سے روکتی ہے، جو جنگ بندی کے مذاکرات میں ان کے کردار کو محدود کرتی ہے۔
ب. ایران کے ساتھ دشمنی:
ایران، جو ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، حماس کا اہم حامی ہے۔ سنی عرب ممالک ایران کو خطے میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں اور اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چونکہ حماس ایران سے مالی، عسکری، اور تکنیکی امداد لیتا ہے، سنی عرب ممالک اسے ایران کا "پراکسی” سمجھ کر اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
سعودی عرب: سعودی عرب نے حماس کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے اور اس کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں تاکہ ایران کے اثر کو روکا جا سکے۔
متحدہ عرب امارات: یہ ایران کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیتا ہے، جس کی وجہ سے حماس کی حمایت سے گریز کرتا ہے۔
نتیجہ: ایران سے دشمنی کی وجہ سے سنی عرب ممالک حماس پر دباؤ ڈالتے ہیں یا اسے تنہا کرتے ہیں، جو جنگ بندی کے لیے اس کی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے۔

ج. اسرائیل کے ساتھ بڑھتی قربت (ابراہم ایکارڈز):
2020 کے ابراہم ایکارڈز کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تعاون بڑھایا ہے، حالانکہ باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔
یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ معاشی، تکنیکی، اور سیکیورٹی تعاون کو ترجیح دیتے ہیں۔ حماس، جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرتی ہے، ان کے اس ایجنڈے کے لیے رکاوٹ ہے۔ مثال کے طور پر:
متحدہ عرب امارات: اسرائیل کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کی وجہ سے وہ حماس کی حمایت سے گریز کرتا ہے۔
بحرین: بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو مضبوط کیا، جو حماس کے عسکری ایجنڈے کے خلاف ہے۔
نتیجہ: اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے یہ ممالک حماس پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں یا اسرائیل کی پالیسیوں کی خاموش حمایت کرتے ہیں، جو تنازعہ کو طول دیتا ہے۔
د. فلسطینی اتھارٹی (الفتح) کی حمایت:
سنی عرب ممالک، خاص طور پر مصر، اردن، اور سعودی عرب، فلسطینی اتھارٹی (الفتح کی زیر قیادت) کی حمایت کرتے ہیں، جو حماس کی حریف ہے۔ 2007 میں غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد سے دونوں گروہوں کے درمیان شدید دشمنی ہے۔
عرب ممالک الفتح کو فلسطینیوں کے جائز نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ مذاکرات اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔ حماس کا سخت گیر موقف (اسرائیل کی غیر تسلیمی) ان کے لیے ناقابل قبول ہے۔
نتیجہ: حماس کی بجائے الفتح کی حمایت کی وجہ سے عرب ممالک جنگ بندی کے مذاکرات میں حماس کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عمل کو پیچیدہ بناتا ہے۔
- جنگ بندی نہ ہونے میں سنی عرب حکمرانوں کا کردار
سنی عرب حکمرانوں کا جنگ بندی نہ ہونے میں براہ راست یا بالواسطہ کردار درج ذیل طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے:
الف. محدود یا غیرجانبدار ثالثی:
مصر اور قطر کی ثالثی: مصر اور قطر جنگ بندی کے مذاکرات میں ثالثی کرتے ہیں، لیکن ان کی اپنی ترجیحات ان کے کردار کو متاثر کرتی ہیں:
مصر: مصر غزہ کی سرحد (رفح کراسنگ) پر سخت کنٹرول رکھتا ہے اور حماس کے ہتھیاروں تک رسائی کو روکنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے حماس پر دباؤ بڑھتا ہے، لیکن یہ جنگ بندی کے لیے اسے لچکدار بنانے کی بجائے مزید سخت گیر کرتا ہے۔
قطر: قطر حماس کو مالی امداد دیتا ہے اور مذاکرات کی میزبانی کرتا ہے، لیکن اس کا اثر محدود ہے کیونکہ وہ اسرائیل یا امریکا پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
نتیجہ: مصر اور قطر کی ثالثی کوششیں قابل قدر ہیں، لیکن ان کی غیرجانبداری یا اپنے مفادات کی وجہ سے وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان پائیدار معاہدہ کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
ب. حماس کی تنہائی:
سنی عرب ممالک کی طرف سے حماس کی سیاسی اور مالی تنہائی نے اسے ایران پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کیا۔ یہ تنہائی جنگ بندی کے امکانات کو کم کرتی ہے کیونکہ:
حماس کے پاس مذاکرات کے لیے وسائل اور بین الاقوامی حمایت کم ہے۔
ایران کی حمایت حماس کو عسکری طور پر مضبوط کرتی ہے، جو اسے جنگ بندی کے بجائے مزاحمت کی طرف مائل رکھتی ہے۔
مثال: سعودی عرب نے ماضی میں فلسطینی کاز کی حمایت کی، لیکن حالیہ برسوں میں اس نے حماس کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کو ترجیح دی، جس سے حماس کی پوزیشن کمزور ہوئی۔
ج. اسرائیل کی پالیسیوں کی خاموش حمایت:
ابراہم ایکارڈز کے بعد سے کئی سنی عرب ممالک نے اسرائیل کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت نہیں کی، حتیٰ کہ غزہ میں فوجی کارروائیوں کے دوران بھی۔ مثال کے طور پر:
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے غزہ میں اسرائیل کے 2023-2025 کے آپریشنز کی کھل کر مذمت سے گریز کیا اور انسانی امداد تک محدود رہے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ معاہدے پر بات چیت جاری رکھی، جو حماس کے لیے دباؤ کا باعث ہے۔
نتیجہ: اسرائیل کی پالیسیوں کی خاموش حمایت یا کمزور مذمت نے اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کی جرات دی، جو جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
د. داخلی اور علاقائی ترجیحات:
سنی عرب ممالک اپنی داخلی استحکام اور علاقائی مفادات کو فلسطینی کاز سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
مصر: سیناء میں دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے مصر غزہ کی سرحد پر سخت کنٹرول رکھتا ہے، جو حماس کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔
سعودی عرب: ایران کے خلاف اتحاد اور امریکی حمایت کو ترجیح دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حماس کے ساتھ تعاون سے گریز کرتا ہے۔
نتیجہ: ان ممالک کی ترجیحات جنگ بندی کے لیے مشترکہ عرب دباؤ کو کمزور کرتی ہیں، جو تنازعہ کے حل کے لیے ضروری ہے۔

- کیا سنی عرب حکمرانوں کا "ہاتھ” ہے؟
براہ راست ہاتھ نہیں: یہ کہنا درست نہیں کہ سنی عرب حکمران براہ راست جنگ بندی کو روکنے کے لیے کوئی سازش کر رہے ہیں۔ ان کے فیصلے ان کے اپنے قومی مفادات، داخلی سلامتی، اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملی پر مبنی ہیں۔ وہ جنگ بندی کی ناکامی کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ ان کے غیر فعال یا غیرجانبدار کردار نے اس عمل کو سست کیا ہے۔
بالواسطہ کردار: ان کی حماس سے دوری، اسرائیل کے ساتھ بڑھتی قربت، اور ایران سے دشمنی نے حماس کو کمزور کیا اور اسرائیل کو زیادہ جارحانہ پالیسی اپنانے کی جگہ دی۔ یہ عوامل بالواسطہ طور پر جنگ بندی کی ناکامی میں حصہ ڈالتے ہیں۔
دیگر فریقین کا کردار: جنگ بندی نہ ہونے کی بنیادی وجہ حماس اور اسرائیل کے متضاد مقاصد ہیں۔ حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی، جبکہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکا کی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور فلسطینی دھڑوں کے درمیان تقسیم بھی اہم عوامل ہیں۔ سنی عرب ممالک ان عوامل کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کرتے۔ - کیا سنی عرب ممالک جنگ بندی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں؟
موجودہ کردار: مصر اور قطر نے جنگ بندی کے مذاکرات میں ثالثی کی ہے، لیکن ان کی کوششیں عارضی معاہدوں (جیسے جنوری 2025 کی جنگ بندی) تک محدود رہی ہیں۔ ان کی اپنی حدود ہیں، جیسے کہ مصر کا اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون اور قطر کا محدود سفارتی اثر۔
ممکنہ کردار: اگر سنی عرب ممالک مشترکہ طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کریں اور حماس پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں، تو وہ زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے انہیں اپنی داخلی ترجیحات (جیسے اخوان سے خوف) اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنا ہوگا۔
چیلنجز: ابراہم ایکارڈز اور ایران سے دشمنی کی وجہ سے سنی عرب ممالک کے درمیان فلسطینی ایشو پر اتفاق رائے مشکل ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے اجلاسوں میں بھی عملی اقدامات پر تقسیم نظر آتی ہے۔ - خلاصہ
سنی عرب مسلم حکمرانوں کا جنگ بندی نہ ہونے میں براہ راست "ہاتھ” نہیں ہے، لیکن ان کی پالیسیوں نے بالواسطہ طور پر اس عمل کو متاثر کیا ہے۔ ان کی حماس سے دوری (اخوان سے تعلق، ایران سے دشمنی، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے)، فلسطینی اتھارٹی کی حمایت، اور غیرجانبدار یا محدود ثالثی نے حماس کو تنہا کیا اور اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کی جگہ دی۔ تاہم، جنگ بندی کی ناکامی کی بنیادی وجہ حماس اور اسرائیل کے متضاد مقاصد، امریکی حمایت، اور فلسطینی دھڑوں کی تقسیم ہیں۔ سنی عرب ممالک جنگ بندی میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، لیکن ان کے اپنے مفادات اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں.