اردو غير اسلامى زبان ہے !

اردو غير اسلامى زبان ہے

 یہ ایک پررونق محفل تھی، جس میں اہلِ علم و فضل اور اربابِ ذوق و سخن حلقہ در حلقہ بیٹھے تھے، چائے کے دور چل رہے تھے اور باتوں کا سلسلہ کہیں فقہ کے میدان سے جڑتا، اور کہیں ادب کے گلزار میں جا پہنچتا، ایسے ہی عالم میں مفتی صاحب نے اپنا مفتيانه عصا زمین پر ٹیک کر بات چھیڑ دی:

ہمارے اکابر کے مراتب کہاں کے کہاں تھے! فارسی دانی میں ان کی دسترس ایسی کہ گویا زبان ان کے زیرِ نگیں تھی، اردو؟ اردو کو وہ کوئی وقعت ہی نہ دیتے تھے!

یہ سننا تھا کہ میر صاحب کی آنکھوں میں ایک بجلی سی لپکی، پیشانی پر شکن اُبھر آئے اور نہایت دھیما مگر کاٹ دار لہجہ اختیار کیا:

جنابِ والا! ہماری اس بےتکلّف نشست میں ایسے نفوسِ قدسیہ کا ذکر کیوں چھیڑتے ہیں؟ یہ تبرکات ہیں، ان کے تقدس کو یوں مجمع میں مباحثے کی بھینٹ نہ چڑھائیے!

مفتی صاحب نے گویا اپنی تلوار میان سے نکالی:

آپ نے میری بات پوری سنی کہاں! پاکیزگی اور ناپاکیزگی کا شوشہ چھیڑ دیا۔ اپنے بزرگوں کی حرمت سے ہم ناواقف نہیں، مگر آپ اصحابِ سخن، فطرتاً گستاخ واقع ہوئے ہیں؛ گستاخی میں بازی لے جاتے ہیں اور اسی پر نازاں بھی رہتے ہیں!

میں نے بصد احترام عرض کیا: حضور! بات کو مکمل فرمائیے، گو ادھوری بات اور پوری بات میں حکمًا کچھ فرق نہیں، دونوں کے اثرات یکساں ہى رہتے ہیں۔

میر صاحب نے قہقہہ لگایا اور چوٹ کی: ارے! فقہ و فتویٰ کی صحبت نے تمہاری زبان بھی کچھ اور ہی بنا ڈالی! یہ ‘حکماً یکساں ہیں’ کس چنڈو خانه کی زبان ہے؟”

یہ بات چنگاری كا كام كر گئی اور مفتی صاحب نے موقع کو غنیمت جان کر اصل نشتر چلا دیا:

اكابر اردو کو خاطر میں کیوں لاتے؟ آخر یہ بھی کوئی زبان ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ اردو غیر اسلامی زبان ہے!

یہ جملہ گویا مجلس پر بجلی بن کر گرا، ہم پر ایسا سکتہ طاری ہوا کہ لمحہ بھر کو سانپ سونگھ گیا۔ میں نے کہا:

سبحان اللہ، مفتی صاحب! یہ کیسا حکم صادر فرمایا جناب عالى نے! دنیا اردو کو اسلامی زبان تسلیم کرتی ہے۔ اس زبان میں جتنی تفاسیر مدوّن ہوئیں، جتنے ضخیم مجلدات سیرتِ طیبہؐ پر لکھے گئے، شاید عربی میں بھی نہ پائے جائیں! ایسی دینی زبان پر یہ تہمت؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ چراغ کو اندھیرا کہا جائے!”

مفتی صاحب نے زیرِ لب تبسم کرتے ہوئے سوال کیا: کیا ‘کفر’ اور ‘کافر’ اسلام کی ضد نہیں؟

میں نے کہا: جی، بلا شبہ!

فرمایا: تو پھر سن لیجیے، یہی الفاظ اردو شاعری نے حسن و لطافت کا جامہ پہنا کر رائج کئے۔ پھر آپ ہی فرمائیے، کیا یہ اسلام کی خدمت ہے یا مخالفت؟

یہ کہہ کر انہوں نے اپنی بیاض نکالی، اور وہ اشعار سنانے لگے جو برسوں سے دیوانوں میں محفوظ تھے اور آج گویا ہمارے خلاف شہادت دینے کھڑے ہو گئے:

سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ

مذہبِ عشق اختیار کیا

آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں

پیشانی پر ہے قشقہ، زنار ہے کمر میں

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا

کافر کی شوخی دیکھو، گھر میں خدا کے مارا

اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی

اُف! تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

یہ سب سن کر میر صاحب کے رخساروں کی سرخی ماند پڑ گئی۔ آہستگی سے کہا: حضرت! یہ سب استعارات ہیں، حقیقت نہیں!

مگر مفتی صاحب کی آواز میں اب گھن گرج پیدا ہو چکی تھی: جب کفر و کافر کے یہ استعارے زبان پر یوں بےمحابا چڑھ جائیں، تو كفر کی وحشت ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہی تو ہوا!

میں نے کہا: حضور! میر و غالب کا کیا ذکر! كسى شاعر اسلام كا كلام دکھائیے!

فرمایا: کیا شاعر اسلام علامه اقبال کو مانتے ہو؟

میں نے کہا: یقیناً! فرمایا: تو پھر یہ بھی سن لو!

متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی

یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

یہ سن کر میر صاحب نے پھر وہی موقف دہرایا: یہ سب محض شعری استعارات ہیں! اور ساتھ ہی نہایت متانت سے کہا: شعر و ادب کے آستانے پر بھی کچھ ادب لائیے!

مگر مفتی صاحب اپنی ضد پر قائم رہے اور اردو کی تحقیر پر مُصر۔

میں نے آخر میں کہا: مفتی صاحب! آپ کے اکابر فارسی دانی میں یکتا تھے، ذرا چشمِ انصاف کھولئے، کیا یہ سب استعارات فارسی میں نہیں؟ یہی مضامین حافظ، عمر خیام اور مولانا روم کے ہاں بکثرت نہیں پائے جاتے؟

پھر میں نے دو فارسی اشعار بطورِ دلیل پیش کئے:

این ہمہ جنگ و جدل حاصلِ کوتاہ نظری است

چو نظر پاک کُنی، کعبہ و بت خانہ یکی است

اور:

دو دل بودن در این راہ سخت تر عیبی است سالک را

ترسم ز کفرِ خود کہ دارد بویِ ایمان ہم

یہ سنتے ہی مفتی صاحب نے اپنا عصا اٹھایا، گویا مزید حجت سے گریزاں ہوئے اور يه فیصلہ صادر کر گئے: جب ہمارے اکابر نے فارسی کو ترجیح دی تو بےسبب نہ دی، اگر دنیا کی ساری خلقت بھی ایک طرف ہو جائے، تب بھی میں حق کا پرچم بلند رکھوں گا!

انجینئر محمد علی مرزا مفتن یامحقق ؟

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ حیات و خدمات

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

کیتھرین پیریز شکدم وہ یہودی جاسوس خوبصورت لڑکی جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے