مودی ٹرمپ تعلقات میں کڑواہٹ: آخر ٹرمپ کے لئے امریکہ میں الیکشن مہم چلانے والے نریندرمودی سے ٹرمپ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟

ٹرمپ

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلے بہت اچھے تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو "مائی فرینڈ” کہتے تھے۔ 2019 میں "ہاؤڈی مودی” اور 2020 میں "نمستے ٹرمپ” جیسے بڑے ایونٹس نے ان کی دوستی کو دنیا کے سامنے دکھایا۔ لیکن 2025 میں کچھ ایسی چیزیں ہوئیں جنہوں نے ان کے تعلقات میں مشکلات پیدا کیں۔ یہ مضمون بتاتا ہے کہ ایف-35 جنگی طیاروں کی پیشکش اور پاک-بھارت تنازع نے مودی اور ٹرمپ کے رشتے کو کیسے متاثر کیا۔

ایف-35 جنگی طیاروں کی پیشکش

2025 کے شروع میں ٹرمپ نے بھارت کو ایف-35 جنگی طیاروں کی پیشکش کی۔ یہ طیارے دنیا کے سب سے جدید اور مہنگے طیاروں میں سے ہیں۔ ایک طیارے کی قیمت تقریباً 80 سے 110 ملین ڈالر ہے۔ پہلے تو بھارت نے اس پیشکش کو اچھا سمجھا کیونکہ یہ بھارتی فضائیہ کو مضبوط کر سکتا تھا۔ لیکن جلد ہی بھارت میں اس پر سوالات اٹھنے لگے۔

بھارت کے کچھ لوگوں اور اپوزیشن نے کہا کہ یہ طیارے بہت مہنگے ہیں اور ان کو چلانے کا خرچہ بھی زیادہ ہے۔ ایک گھنٹے کی پرواز کا خرچہ تقریباً 36 ہزار ڈالر ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ آخر میں، بھارت نے یہ طیارے نہ خریدنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجائے دیگر امریکی چیزیں جیسے تیل اور سٹیل خریدنے پر غور شروع کیا۔ اس سے ٹرمپ ناراض ہوئے اور انہوں نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف (ٹریڈ ٹیکس) لگانے کی دھمکی دی۔

پاک-بھارت تنازع

مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک چھوٹی سی جنگ ہوئی جو چار دن تک چلی۔ اس تنازع کو پہلگام حملے سے جوڑا گیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اس جنگ کو روکنے میں مدد کی اور تجارت کی دھمکیوں سے "مستقل جنگ بندی” کرائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دوران پانچ جنگی طیارے گرائے گئے، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کس ملک کے تھے۔

بھارت نے ٹرمپ کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنگ بندی بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان براہ راست بات چیت سے ہوئی، نہ کہ امریکی مدد سے۔ بھارت ہمیشہ سے کہتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت نہیں چاہتا۔ ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش نے بھارت کو ناراض کیا۔

پاکستان نے ٹرمپ کے دعوے کی حمایت کی۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اسے "سفارتی کامیابی” کہا۔ اس سے بھارت میں مودی پر تنقید بڑھی کیونکہ اپوزیشن نے کہا کہ مودی ٹرمپ کے دباؤ میں ملک کی عزت پر سمجھوتہ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کا "ٹیرف کنگ” طعنہ

ٹرمپ نے کئی بار بھارت کو "ٹیرف کنگ” کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت امریکی مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس لگاتا ہے، جس سے امریکہ کو نقصان ہوتا ہے۔ 2025 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارت 190 ارب ڈالر تک پہنچی، لیکن امریکہ کو 45 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ بھارت امریکی چیزیں زیادہ خریدے اور تجارت کو منصفانہ بنائے۔

جب بھارت نے ایف-35 نہ خریدے تو ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا۔ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید تناؤ آیا۔ بھارت نے جواب میں امریکی تیل اور دیگر مصنوعات خریدنے کی کوشش کی، لیکن زراعت اور دودھ کے شعبوں میں اپنا تحفظ برقرار رکھا۔

کیا مودی اور ٹرمپ کے تعلقات خراب ہو گئے؟

مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں کچھ مشکلات ضرور آئی ہیں، لیکن یہ کہنا کہ ان کے رشتے میں بڑی دراڑ پڑ گئی، شاید درست نہیں۔ دونوں رہنما اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ جنوری 2025 میں ان کی فون پر بات ہوئی اور فروری 2025 میں ایک ملاقات بھی طے ہے۔ دونوں ممالک چین کے مقابلے میں انڈو-پیسیفک خطے میں تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں اور کواڈ شراکت داری کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن ایف-35 تنازع اور پاک-بھارت جنگ میں ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے بھارت کو ناراض کیا ہے۔ بھارت نے ایف-35 نہ خرید کر اور ٹرمپ کی ثالثی کو مسترد کر کے اپنی خودمختاری کا دفاع کیا۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ تجارت اور دوستی نے بھی بھارت میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔

خلاصہ:

مودی اور ٹرمپ کے تعلقات "مائی فرینڈ” سے شروع ہوئے، لیکن ایف-35 تنازع اور پاک-بھارت کشیدگی نے انہیں ایک مشکل امتحان سے گزارا۔ ٹرمپ کی "ٹیرف کنگ” کی بات اور بھارت پر دباؤ نے تعلقات میں سردمہری پیدا کی۔ پھر بھی، دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات، جیسے کہ چین کے مقابلے میں تعاون، انہیں ایک دوسرے کے قریب رکھ سکتے ہیں۔ آگے چل کر دونوں رہنماؤں کو سفارتی طور پر محتاط رہنا ہوگا تاکہ تعلقات بہتر ہوں اور خطے میں امن برقرار رہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو دیدی دھمکی

مسلمان ہونے کی تمنا رکھنے والی اٹلی کی غیر مسلم خاتون کا سوال

وال اسٹریٹ جرنل” کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا 10 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے