ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے مشرق وسطیٰ میں ایک نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ 13 جون 2025 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں، جن میں ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، نے ایران کی طرف سے جوابی کارروائیوں کو جنم دیا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے "آپریشن وعدہ صادق 3” کے تحت اسرائیل پر متعدد میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن میں تل ابیب، حیفہ اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں کم از کم 10 ہلاکتیں اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب، اسرائیل نے بھی ایران کے جوہری تنصیبات، خاص طور پر آراک ہیوی واٹر پلانٹ، پر حملے کیے، جن سے ایرانی فوج کے اعلیٰ افسران اور جوہری سائنسدانوں سمیت 224 افراد ہلاک ہوئے۔
اس تنازع کے دوران، ایران نے واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر خلیجی ممالک نے اپنی سرزمین امریکی حملوں کے لیے استعمال ہونے دی تو وہ بھی جوابی کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں امریکا براہ راست شریک ہے، اور اگر جنگ خلیج فارس تک پھیلتی ہے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ اس تنبیہ کے بعد، امریکا نے اپنے فوجی اثاثوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات اٹھائے ہیں۔
العدید ایئر بیس سے طیاروں کی منتقلی
امریکی فوج نے قطر میں واقع العدید ایئر بیس، جو مشرق وسطیٰ میں اس کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، سے اپنے طیاروں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ C-130، C-17، انٹیلی جنس-سرویلنس-ریکونیسنس (ISR) پلیٹ فارمز، اور ایندھن بھرنے والے ٹینکرز سمیت متعدد طیاروں کو اس اڈے سے ہٹایا گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، یہ اقدام ممکنہ ایرانی حملوں کے خطرے کے پیش نظر اٹھایا گیا، کیونکہ العدید ایئر بیس کے کچھ طیاروں کے لیے مضبوط بنکرز دستیاب نہیں تھے۔
امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈوں، خاص طور پر عراق، قطر، اور بحرین میں موجود تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل اور دیگر عسکری ساز و سامان تیار کر لیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران عراق سے حملوں کا آغاز کر سکتا ہے اور آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی حکمت عملی بھی اپنا سکتا ہے، جس سے عالمی توانائی کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں، امریکا نے اپنے تقریباً 30 سے زائد ایندھن بھرنے والے طیاروں کو یورپ منتقل کیا ہے، جو ممکنہ طور پر ایران کی جوہری تنصیبات، جیسے فردو ری ایکٹر، پر حملوں کے لیے بمبار طیاروں کی رینج بڑھانے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
امریکی حکمت عملی اور سفارتی اقدامات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام بند کرے، ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، ٹرمپ نے اسرائیل-ایران تنازع میں براہ راست فوجی مداخلت کے بارے میں مبہم موقف اپنایا ہے۔ امریکی حکام نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملوں سے گریز کرے، کیونکہ اس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی طرف مزید دھکیلا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، امریکا نے اپنے سفارتی عملے کی حفاظت کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ قطر میں امریکی سفارت خانے نے عارضی طور پر اپنے عملے کو العدید ایئر بیس تک رسائی سے روک دیا ہے اور وہاں موجود امریکی شہریوں کو زیادہ احتیاط برتنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح، اسرائیل میں موجود غیر ضروری امریکی سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو واپس بلایا گیا ہے، اور یروشلم میں امریکی سفارتخانہ پیر سے جمعہ تک بند رہا۔
خطے پر اثرات
ایران کے ممکنہ جوابی حملوں کے خوف نے نہ صرف امریکی فوجی حکمت عملی بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔ یونائیٹڈ ایئرلائنز اور امریکن ایئرلائنز نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں، جبکہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی پروازوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں، اور اسرائیل نے بھی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود کو محدود کر دیا ہے۔
ایران کے اتحادی، جیسے یمن کے حوثی گروپ، بھی متحرک ہو چکے ہیں اور بحر احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایران نے خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
نتیجہ
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع نے مشرق وسطیٰ کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا کی طرف سے العدید ایئر بیس سے طیاروں کی منتقلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ایران کے ممکنہ جوابی حملوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ تاہم، امریکی حکام ابھی تک براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کر رہے ہیں، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے تنازع کو حل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ایران کی طرف سے مذاکرات سے انکار اور جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے عزم نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ خطے میں امن کے قیام کے لیے فریقین کو ضبط و تحمل سے کام لینے اور سفارتی راستوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ تنازع ایک بڑی علاقائی جنگ کا روپ دھار سکتا ہے۔