امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف جنرل مائیکل کوریلا نے حال ہی میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی کے شعبے میں ایک قابل اعتماد شراکت دار قرار دیا۔ انہوں نے 10 جون 2025 کو واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران یہ بیان دیا کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ذاتی طور پر فون کال کر کے کابل ایئرپورٹ پر ایبی گیٹ حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ جعفر (شریف اللہ) کی گرفتاری کی اطلاع دی۔ اس اہم پیش رفت نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے عزم کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔
تاریخی پس منظر
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم عمل ہے۔ 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد، پاکستان نے امریکہ اور نیٹو افواج کے ساتھ مل کر القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ پاک فوج نے قبائلی علاقوں، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز) میں متعدد آپریشنز کیے، جن میں آپریشن المیزان، آپریشن راہ راست، اور آپریشن ضرب عضب شامل ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں ہزاروں دہشت گرد ہلاک یا گرفتار ہوئے، اور پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
تاہم، اس جنگ میں پاکستان کو بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ ہزاروں فوجی اور شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے اپنے عزم کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
جعفر کی گرفتاری: ایک اہم کامیابی
جنرل مائیکل کوریلا کے مطابق، پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کابل ایئرپورٹ پر 2021 میں ہونے والے ایبی گیٹ حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ جعفر (شریف اللہ) کی گرفتاری کی اطلاع دی۔ یہ حملہ، جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، داعش خراسان (ISIS-K) نے کیا تھا۔ جعفر کی گرفتاری نہ صرف پاکستان کی انٹیلی جنس اور فوجی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس کے عالمی انسداد دہشت گردی کے تعاون کے عزم کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
جنرل کوریلا نے بتایا کہ پاکستان نے جعفر کو امریکہ کے حوالے کرنے کی پیشکش بھی کی، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی ایک مضبوط مثال ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے محدود انٹیلی جنس تعاون کے باوجود داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کیں، جن میں درجنوں دہشت گردوں کی ہلاکت اور کم از کم پانچ اہم رہنماؤں کی گرفتاری شامل ہے۔ یہ کامیابیاں پاکستان کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی
پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کثیر جہتی ہے، جو فوجی کارروائیوں، انٹیلی جنس آپریشنز، اور سماجی-اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر مشتمل ہے۔ اس حکمت عملی کے اہم اجزاء درج ذیل ہیں:
- فوجی آپریشنز: پاک فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے متعدد بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے۔ آپریشن ضرب عضب (2014) اور آپریشن رد الفساد (2017) نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچایا۔
- انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں: پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں، خاص طور پر آئی ایس آئی، دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور منصوبوں کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ جعفر کی گرفتاری اسی انٹیلی جنس تعاون کا نتیجہ ہے۔
- نیشنل ایکشن پلان (NAP): 2014 کے آرمی پبلک اسکول پاشک کے بعد قائم کردہ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی ہے، جو دینی مدرسوں کی رجسٹریشن، دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام، اور دہشت گرد نظریات کے خلاف اقدامات پر زور دیتا ہے۔
- سرحدی انتظام: پاکستان نے پاکستان-افغانستان سرحد پر باڑھ لگانے اور چیک پوسٹوں کے قیام سے دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کو روکنے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
- سماجی و معاشی ترقی: دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع فراہماجی ترقی کے لیے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے تاکہ نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور رکھا جا سکے۔.
چیلنجز اور تنقید
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی، دہشت گردی کی مالیات کی روک تھام، اور عالمی برادری کے ساتھ ساتھ مل کر کام کرنا بعض اوقات پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ کچھے مغربی ممالک کی طرف سے یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان بعض گروہوں کے خلاف کارروائی میں سلیکٹو رہا ہے، خاص طور پر ان گروہوں کے خلاف جو بھارت یا افغانستان میں سرگرم ہیں۔ تاہم، پاکستان کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ، انسداد دہشت گردی کے لیے وسائل کی کمی، علاقائی عدم استحکام، اور عالمی طاقتوں کے متضاد مفادات نے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ داعش خراسان جیسے گروہ، جو کہ سرحد پار سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، ایک نیا خطرہ ہیں، اور ان سے نمٹنے کے لیے مسلسل چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
عالمی تعاون کی اہمیتت
جنرل کوریلا کے بیانات سے واضح ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون دوبارہ مضبوط ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس ایشنشرنگ، فوجی تربیت، اور مشترکہ آپریشنز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مؤثر بنایا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان چین، ترکی، سعودی عرب، اور دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ مل کر بھی کام کر رہا ہے تاکہ علاقائی استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔۔
پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشش کر رہا ہے، جو دہشت گردی کی مالیات اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے عالمی معیارات طے کرتی ہے۔ ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا پاکستان کی معیشت اور عالمی ساکھ کے لیے اہم ہے۔
مستقبل کے امکانات
پاکستان کا انسداد دہشت گردی میں کردار مستقبل میں بھی اہم رہے گا۔ داعش خراسان جیسے گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر، پاکستان کو اپنی انٹیلی جنس اور فوجی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، علاقائی ممالک، بالخصوص س، کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے تا کہ سرحد پار دہشت گردی کو روکا جا سکے۔
عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کو تسلیم کرے اور اسے وسائل، ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کرنے میں مدد کرے۔ پاکستان کی معاشی استحکام اور سماجی ترقی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اور اس سلسلے میں عالمی امداد اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
نتیجہ
پاکستان نے انسداد دہشت گردی میں نہ صرف اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کیا۔ جعفر کی گرفتاری اور داعش کے خلاف کارروائیاں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جنرل مائیکل کوریلا کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک قابل اعتماد شراکت دار ہے، جو عالمی امن اور سورکشت کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ مستقبل میں، علاقائی اور عالمی تعاون کے ذریعے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔