یاسر ابو شباب کو اسرائیل حماس ختم کرنے کے لئے دینے لگا ہے خفیہ مدد

یاسر ابو شباب

2025 کے دوران غزہ کی تباہ کن صورتحال میں ایک نیا اور تشویشناک پہلو سامنے آیا ہے۔ متعدد معتبر ذرائع اور سابق اسرائیلی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل نے ایک متنازع فلسطینی ملیشیا کو نہ صرف ہتھیار فراہم کیے بلکہ اس کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ اس گروہ پر داعش سے مبینہ تعلقات، انسانی امداد کی لوٹ مار اور سیکیورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔


پس منظر: متنازع گروہ اور اس کی قیادت

یہ گروہ، جسے بعض اوقات "پاپولر فورسز” یا "اینٹی ٹیرر سروس” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مشرقی رفح میں سرگرم ہے اور یاسر ابو شباب نامی شخص اس کی قیادت کر رہا ہے۔ ابو شباب ترابین بدوی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ماضی میں بھی خبروں میں رہا ہے، جس میں منشیات کی اسمگلنگ، چوری اور بدعنوانی شامل ہے۔ ان پر مصر کے سینائی علاقے میں داعش سے وابستہ گروہوں سے روابط کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں، حالانکہ وہ خود ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔


الزامات کی ابتدا: لیبرمین کا دعویٰ

جون 2025 میں سابق اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمین نے تہلکہ خیز بیان دیا کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی منظوری سے اس گروہ کو اسالٹ رائفلیں اور ہلکے ہتھیار فراہم کیے گئے تاکہ حماس کے خلاف اندرونی محاذ کھولا جا سکے۔ نیتن یاہو نے اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل "غزہ کے قبائلی گروہوں” کے ساتھ کام کر رہا ہے، تاہم انہوں نے داعش سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔


انسانی بحران اور لوٹ مار

اس گروہ پر شدید ترین الزام یہ ہے کہ یہ اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے علاقوں میں امدادی ٹرکوں کی لوٹ مار میں ملوث ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ اور متعدد میڈیا ادارے جیسے واشنگٹن پوسٹ اور ہارٹز نے دعویٰ کیا کہ امدادی قافلوں میں شامل 109 ٹرکوں میں سے 98 کو لوٹ لیا گیا۔ یہ لوٹ مار نہ صرف انسانی بحران کو سنگین تر بنا رہی ہے بلکہ اسرائیلی فوج کی مبینہ خاموشی یا معاونت پر بھی سوالات اٹھا رہی ہے۔


سیاسی ردعمل اور داخلی اختلاف

اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ اور لیبرمین جیسے سیاسی رہنما اس پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے، جس کے نتائج خود اسرائیل کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ ان کا خدشہ ہے کہ مہیا کردہ ہتھیار مستقبل میں اسرائیلی شہریوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں، جبکہ ان ملیشیاؤں کے اعمال پر کوئی مؤثر نگرانی موجود نہیں۔


نظریاتی رنگ یا مجرمانہ سرگرمی؟

کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس گروہ نے اپنی سرگرمیوں کو "جہادی نظریاتی رنگ” دینے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر اہمیت حاصل کر سکے۔ ہارٹز اور دی نیو عرب جیسی ویب سائٹس نے دعویٰ کیا کہ گروہ کا سلفی جہادی نظریہ صرف دکھاوے کے لیے اپنایا گیا ہے، جبکہ اس کا اصل مقصد منافع، طاقت اور اسرائیلی حمایت حاصل کرنا ہے۔


بین الاقوامی ردعمل

اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی امدادی اداروں نے ان رپورٹس پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک اعلیٰ اقوام متحدہ اہلکار کے مطابق، لوٹ مار کے واقعات نے غذائی عدم تحفظ کو بڑھاوا دیا ہے، خاص طور پر جنوبی غزہ میں جہاں امدادی سامان کا انحصار زمینی راستوں پر ہے۔


حماس کا موقف

حماس نے اس گروہ کو "اسرائیلی ایجنٹ” قرار دیا ہے اور اس کے کئی ارکان کو مبینہ طور پر ہلاک بھی کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، جنوری 2025 سے قبل اس گروہ کے 20 سے زائد ارکان کو امدادی سامان چوری کرنے کے جرم میں سزائیں دی گئی ہیں۔ ابو شباب خاندان نے بھی اپنے سربراہ یاسر سے علانیہ لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، جس سے گروہ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی ہے۔


اسرائیلی حکومت کا مبہم ردعمل

نیتن یاہو کے دفتر نے مجموعی الزامات کو مسترد نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ "اسرائیل مختلف ذرائع سے حماس کو شکست دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔” اسرائیلی فوج (IDF) نے بھی اس موضوع پر براہِ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، حالانکہ وہ دعویٰ کرتی ہے کہ امدادی قافلوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


نتیجہ: سوالات جو باقی ہیں

اس معاملے نے غزہ کے پہلے سے بگڑتے انسانی بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اسرائیل کا غیر روایتی سیکیورٹی منصوبہ بظاہر قلیل مدتی فوائد لا سکتا ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب یہ عالمی برادری، میڈیا، اور انسانی حقوق کے اداروں پر منحصر ہے کہ وہ ان الزامات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کریں تاکہ سچائی سامنے آ سکے اور مستقبل میں ایسے تجربات سے بچا جا سکے جو خطے میں مزید تباہی لا سکتے ہیں۔

یاسر ابو شباب: غزہ کے متنازع ملیشیا رہنما کا تعارف

یاسر ابو شباب غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں سرگرم ایک متنازع مسلح گروہ کے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کا تعلق فلسطین کے ترابین بدوی قبیلے سے ہے، جو تاریخی طور پر سینائی اور جنوبی غزہ میں پھیلا ہوا ہے۔ ابو شباب ان دنوں عالمی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب سابق اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمین نے ان پر اسرائیلی فوج سے مبینہ تعاون اور ہتھیار وصول کرنے کا الزام عائد کیا۔

یاسر ابو شباب پر متعدد الزامات عائد ہیں، جن میں منشیات کی اسمگلنگ، انسانی امداد کی چوری، اور داعش سے نظریاتی یا عملی روابط شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان کی ملیشیا مشرقی رفح میں امدادی قافلوں کو نشانہ بناتی ہے اور اسرائیلی فوج کی مبینہ خاموش حمایت سے کام کرتی ہے۔

اگرچہ ابو شباب نے داعش سے تعلقات اور امداد چوری کے الزامات کی تردید کی ہے، لیکن ان کی سرگرمیوں کو لے کر فلسطینی عوام، حماس، اور حتیٰ کہ ان کے اپنے قبیلے کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ ان کے خاندان نے بھی ان سے علانیہ لاتعلقی اختیار کر لی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کی سرگرمیاں نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ سماجی طور پر بھی متنازع بن چکی ہیں۔

یاسر ابو شباب اس وقت اس پیچیدہ سیاسی و عسکری کھیل کا کردار بن چکے ہیں جس میں ایک طرف اسرائیلی حکمت عملی ہے اور دوسری طرف غزہ کا تباہ حال شہری معاشرہ۔ ان کی شخصیت ان الزامات اور متضاد بیانیوں کے درمیان گم ہوتی جا رہی ہے، جو انہیں کبھی "قومی مخالف” اور کبھی "قومی مفاد کا محافظ” بنا کر پیش کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے