مدارس میں مُفکر کیوں پیدا نہیں ہوتے ہیں ایک اہم سلگتا سوال ؟

مدارس میں مُفکر

ہمارے كرم فرما جناب سيد ساجد حسين پیرزادہ صاحب کو کسی نے ایک انگریزی تحریر بھیج کر یہ سوال کیا ہے کہ کیا یہ درست ہے کہ بہت سے مذہبی رہنما تعلیم و ارشاد کو عوام کی تربیت اور رہنمائی کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنے قابو میں رکھیں اور ان سے سوچنے کی آزادی چھین لیں؟

صاحبِ نظر و خرد! آپ نے جو سوال پیش کیا ہے، وہ معمولی یا ہلکی پھلکی بات نہیں بلکہ دراصل ہمارے دینی و فکری زوال کی جڑوں کو آشکار کرنے والی حقیقت ہے، افسوس صد افسوس کہ یہ امر بجا ہے کہ آج دینی تعلیم اور مذہبی رہنمائی کا وہ سرچشمہ، جو انسان کی عقل کو جِلا دینے، اس کی بصیرت کو وسعت بخشنے اور اُسے تقلید و جمود کی ظلمتوں سے نکال کر تحقیق و تدبّر کی روشنی تک پہنچانے کے لیے قائم ہوا تھا، اکثر مقامات پر غلامی کا ہتھیار بن چکا ہے۔ جو چیز آزادی عطا کرتی تھی، وہی اب اسارت کا ذریعہ ہے؛ جو علم روح کو پرواز بخشتا تھا، وہی اب اس کے پروں کو کتر دیتا ہے۔

دیکھیے، ہمارے معاشرے میں ایسے علما و مشائخ کم نہیں جو اپنے اختیار و اقتدار کو نہ خدا کے انتخاب سے حاصل کرتے ہیں، نہ عوام کی رضا سے۔ نہ وہ کسی وحی کے حامل ہیں، نہ کسی امت کے منتخب؛ لیکن خودساختہ اختیار کے بل پر سامنے آکر عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ غیر منتخب اقتدار ہے جسے اصل دین نے کبھی تسلیم نہ کیا۔ ان حضرات کا طریقِ کار یہ ہوتا ہے کہ آغاز میں چند سادہ، دلکش اور دل نشین باتیں پیش کرتے ہیں، محبت کا چراغ جلا کر دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، اور ایمان کے نام پر تسلیم و رضا کی فضا قائم کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ قریب آجاتے ہیں تو آہستہ آہستہ ایسی مبہم اصطلاحات، پیچیدہ نظریات اور دقیق ضوابط سامنے لاتے ہیں جنہیں عام عقل کی رسائی مشکل پاتی ہے۔ یوں پیروکار رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ناقص و کم فہم سمجھنے لگتے ہیں اور اس یقین میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ ان پیشواؤں کے بغیر حق تک پہنچنا ناممکن ہے۔

یہاں سے غلامی کا دوسرا باب کھلتا ہے۔ عوام اپنی عقل کو تجوری میں بند کر دیتے ہیں، سوال اٹھانا ترک کر دیتے ہیں، غور و فکر کو خیانت اور تدبّر کو گستاخی سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اندھی اطاعت کے ایسے اسیر ہو جاتے ہیں کہ ایک "عالم”، "مفتی”، اور "صاحبِ جبہ و دستار” کا ہر لفظ اُن کے نزدیک حرفِ آخر بن جاتا ہے۔ ایمان، جو دراصل عقل و شعور کی روشنی سے زندہ رہتا ہے، محض تقلید کی زنجیروں میں جکڑ کر رہ جاتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہر دور کی تاریخ میں ظاہر ہوا ہے: رہنما کے لیے عزت، اقتدار اور دولت کے دروازے کھل جاتے ہیں؛ مذہب خدمت کے بجائے سیاست اور تجارت بن جاتا ہے؛ اور ایمان کی حرارت ماند پڑ کر دنیاوی منفعت کی نذر ہو جاتی ہے۔

یہی منظر ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ مدارس اور تعلیمی ادارے، جو دراصل انسان کو غور و فکر کا خوگر بنانے کے لیے قائم ہوئے تھے، وہاں طلبہ کو طوطے کی مانند رٹنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ سوال کرنے کی روش ختم کر دی جاتی ہے اور تدبّر کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کا دورہ کیا جاتا ہے مگر نہ آیات کی معانی و مطالب سمجھائے جاتے ہیں، نہ احادیث کے سند و متن پر کوئی بحث ہوتی ہے، نہ صحیح و سقیم، شاذ و منکر، واہی و موضوع کی کوئی تمییز کرائی جاتی ہے۔ یہ حضرات قرآن و حدیث کا دورہ ضرور کراتے ہیں مگر فقہ و کلام کا دورہ نہیں کراتے، کیونکہ فقہ و کلام سے مسلک کا دفاع ہوتا ہے۔ اگر ان كا بهى دوره كيا جائے تو مسلک کی بنیادیں ڈھیلی پڑنے لگیں۔ تا هم یہاں بھی عقل کو تقلید کی زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل ایسے "فارغ التحصیل” افراد کو جنم دیتی ہے جو نہ مفکر ہوتے ہیں، نہ محقق؛ نہ مفسر، نہ محدث؛ نہ فقیہ اور نہ ہی صاحبِ اجتہاد۔ وہ محض "نقل در نقل” کا ایک سلسلہ رہ جاتے ہیں۔ استاد نے جو کہا، شاگرد نے دہرا دیا؛ پھر وہی شاگرد استاد بن کر اپنے شاگردوں کو وہی کچھ سنا دیتا ہے۔ اس طرح صدیوں پرانی مردہ روایت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ہم اسے "علم” سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ محض الفاظ کی قید اور فکر کی موت ہے۔

کاش کہ ہم دین کے اصل مزاج کو یاد کرتے! دین تو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ علم کو رفاقت اور دوستی کی مانند بانٹا جائے۔ استاد شاگرد کا حاکم نہیں بلکہ اس کا رفیق اور ہم سفر ہے۔ علم ایک مشترکہ سفر ہے جس میں سب آگے بڑھتے ہیں۔ افسوس کہ آج علم کو ایک تخت پر بٹھا دیا گیا ہے اور باقی سب کو اندھی تقلید کے غلام بنا دیا گیا ہے۔ ایک فرد کو مسندِ تقدیس پر بٹھا کر اُسے نجات دہندہ بنا دیا گیا ہے، اور پوری جماعت کو اندھے پیروکاروں کا ہجوم۔ نتیجہ یہ ہے کہ جہاں روشنی ہونی چاہیے وہاں اندھیرا ہے؛ جہاں آزادی ہونی چاہیے وہاں اسارت ہے؛ جہاں بصیرت کا چراغ جلنا چاہیے وہاں جمود کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ اس کا لازمی انجام ارتداد کی ایک ایسی لہر ہے جس کا مقابلہ یہ اندھی، بہری اور گونگی تعلیم ہرگز نہیں کر سکتی۔

یہ سب دیکھ کر ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں کہ سوال کرنے والے کا اعتراض بے بنیاد ہے؟ نہیں، یہ صرف اعتراض نہیں بلکہ ہمارے عہد کا آئینہ ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور تعلیمی اداروں نے اکثر و بیشتر تعلیم و ارشاد کو عوام کی رہنمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے انہیں اپنے قابو میں رکھنے کا آلہ بنا لیا ہے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے، تلخ سہی مگر محض انکار سے مٹائی نہیں جا سکتی۔

لیکن یاد رہے کہ اس ظلمت کو نور میں بدلنے کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی کاندھوں پر ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اصل دین اور اصل تعلیم کا مقصد غلامی نہیں آزادی ہے، تقلید نہیں تحقیق ہے، جمود نہیں حرکت ہے، تاریکی نہیں روشنی ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو دل سے نہ مانیں اور اپنے تعلیمی و مذہبی ڈھانچے کو اس کی طرف واپس نہ لے جائیں، اس وقت تک ہماری زندگیاں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی اور ایمان کا چراغ بجھا ہوا ہی رہے گا۔

طالبان کی جانب سے افغانستان میں انٹرنیٹ پر پابندی ایک نیا چیلنج

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ حیات و خدمات

شیعہ سنی اتحاد کی آڑ میں مولاناسلمان ندوی  کی  انتہا پسندانہ مہم جوئی

کیتھرین پیریز شکدم وہ یہودی جاسوس خوبصورت لڑکی جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے