امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمے کو "جھوٹا تعاقب” (witch hunt) قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے یا نیتن یاہو کو معافی دینے کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں نیتن یاہو کو "عظیم جنگی لیڈر” اور "جنگجو” قرار دیا، جو ایران کے ساتھ حالیہ تنازعے میں اسرائیل کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ بیان ایک امریکی ثالثی سے طے پانے والے اسرائیل-ایران جنگ بندی کے بعد سامنے آیا، جس نے ٹرمپ کے اسرائیل کی عدالتی کارروائی میں غیر معمولی مداخلت کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اس اقدام نے نہ صرف امریکہ-اسرائیل تعلقات پر سوالات اٹھائے بلکہ اسرائیل کی اندرونی سیاست میں بھی تنازعات کو ہوا دی۔
نیتن یاہو کا کرپشن مقدمہ: پس منظر
بنجمن نیتن یاہو، اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزیراعظم، مئی 2020 سے کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں رشوت، دھوکہ دہی، اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہیں۔ یہ الزامات دسمبر 2016 سے شروع ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں عائد کیے گئے، جو تین اہم کیسز پر مشتمل ہیں:
- کیس 1000: نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ہالی ووڈ پروڈیوسر آرنن ملچن سمیت دیگر دولت مند افراد سے 260,000 ڈالر سے زائد مالیت کے عیاشی کے سامان (سگار، شیمپین، اور زیورات) قبول کیے، بدلے میں سیاسی مراعات فراہم کیں، جیسے کہ ملچن کے لیے ٹیکس چھوٹ کی وکالت۔
- کیس 2000: نیتن یاہو نے مبینہ طور پر اخبار "یدیعوت احرونوت” کے پبلشر آرنن موزز کے ساتھ سازباز کی تاکہ مثبت میڈیا کوریج حاصل کی جائے، بدلے میں ایک مقابل اخبار "اسرائیل حیوم” کو نقصان پہنچانے والی قانون سازی کی پیشکش کی۔
- کیس 4000: مواصلات کے وزیر کے طور پر، نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے بیزق ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو ریگولیٹری مراعات دیں، بدلے میں اس کے ملحقہ نیوز آؤٹ لیٹ والا پر مثبت کوریج حاصل کی۔
نیتن یاہو نے ان الزامات کی مسلسل تردید کی ہے، انہیں ایک "جھوٹا تعاقب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے ایک متعصب عدالتی نظام اور دشمن میڈیا کی سازش ہے۔ مقدمہ، جو 2020 میں شروع ہوا، کوویڈ-19، 2023 کے حماس حملے، اور غزہ و لبنان میں تنازعات کی وجہ سے متعدد بار تاخیر کا شکار ہوا۔ جون 2025 میں تل ابیب کی عدالت میں نیتن یاہو سے جرح دوبارہ شروع ہوئی اور اس کے ایک سال تک جاری رہنے کی توقع ہے۔ اگر مجرم قرار پائے تو نیتن یاہو کو رشوت کے لیے 10 سال اور دھوکہ دہی و اعتماد کی خلاف ورزی کے لیے تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کا مداخلت اور جواز
ٹرمپ کا بیان 13 روزہ اسرائیل-ایران تنازعے کے بعد سامنے آیا، جس میں اسرائیل نے امریکی حمایت سے ایران کے جوہری اور فوجی اہداف پر حملے کیے۔ ٹرمپ نے 24 جون 2025 کو جنگ بندی کا اعلان کیا، دعویٰ کیا کہ امریکہ نے "اسرائیل کو بچایا” بمبار طیاروں اور گائیڈڈ میزائلوں سے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر۔ اپنی ٹروتھ سوشل پوسٹ میں، ٹرمپ نے تنازعے کو اسرائیل کے لیے "تاریخ کا عظیم لمحہ” قرار دیا اور نیتن یاہو کی قیادت کی تعریف کی کہ انہوں نے ایران کے جوہری خطرے کو ختم کیا۔ انہوں نے لکھا، "بیبی [نیتن یاہو] اور میں نے ایک ساتھ جہنم کا سامنا کیا، اسرائیل کے دیرینہ دشمن ایران کے خلاف لڑتے ہوئے، اور بیبی اس سے بہتر، تیز، یا مضبوط نہیں ہو سکتے تھے اپنی مقدس سرزمین کے لیے محبت میں۔”
ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف "بے ہودہ جھوٹے تعاقب” کو جاری رکھنے پر حیرت کا اظہار کیا، خاص طور پر ان الزامات کو معمولی قرار دیتے ہوئے جن میں "سگار، ایک بگس بنی گڑیا، اور دیگر غیر منصفانہ الزامات” شامل ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقدمہ "فوری طور پر منسوخ” کیا جائے یا نیتن یاہو کو معافی دی جائے، کہتے ہوئے، "امریکہ نے اسرائیل کو بچایا، اور اب امریکہ ہی بیبی نیتن یاہو کو بچائے گا۔” ٹرمپ کا لہجہ ان کے اپنے قانونی چیلنجز سے مماثلت رکھتا ہے، جہاں وہ خود کو سیاسی طور پر ہدف بنائے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کا وقت قابل توجہ تھا، کیونکہ اس سے ایک دن پہلے 24 جون کو انہوں نے نیتن یاہو پر تنقید کی تھی کہ انہوں نے جنگ بندی کے بعد ایران پر حملے کیے، جو مبینہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ ٹرمپ کا نیتن یاہو کے دفاع میں تیزی سے پلٹنا ان کے تعلقات کی پیچیدہ نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، جو ذاتی وفاداری اور اسرائیلی پالیسی پر مایوسی کے درمیان توازن رکھتا ہے۔
امریکہ-اسرائیل تعلقات اور ایران تنازعہ کا تناظر
جون 2025 میں اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازعہ، جو 13 جون کو اسرائیلی حملوں سے شروع ہوا، دونوں ممالک کے درمیان اب تک کا سب سے مہلک تصادم تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ ایران نے قطر میں امریکی اڈے پر میزائل حملوں سے جوابی کارروائی کی، جسے ٹرمپ نے "مکمل طور پر ناکام اور پیشگی خبردار” قرار دیا۔ امریکی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی کو ٹرمپ نے فتح کے طور پر پیش کیا، لیکن اسرائیل کے بعد کے اقدامات پر ان کی مایوسی واضح تھی۔
ٹرمپ کا نیتن یاہو کا دفاع امریکہ-اسرائیل اتحاد کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر ان کی انتظامیہ کے تحت، جس نے ایران کے خلاف اسرائیل کی حمایت کو ترجیح دی۔ ان کا دعویٰ کہ امریکہ نے "اسرائیل کو بچایا” اور اب "بیبی کو بچائے گا” انہیں اسرائیل کی سلامتی اور نیتن یاہو کی سیاسی بقا میں کلیدی کردار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کے عدالتی نظام پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش غیر معمولی ہے، کیونکہ امریکہ کا اسرائیل کے قانونی نظام پر کوئی براہ راست اختیار نہیں ہے۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ، جن کے پاس معافی دینے کا اختیار ہے، نے کہا کہ معافی کی کوئی درخواست نہیں کی گئی اور یہ "فی الحال زیر بحث نہیں ہے۔”
ردعمل اور اثرات
ٹرمپ کے بیانات نے مختلف ردعمل کو جنم دیا۔ اسرائیل میں، نیتن یاہو کے حامیوں نے ٹرمپ کے "جھوٹے تعاقب” کے بیانیے کی حمایت کی، مقدمے کو ایک ایسے لیڈر کو کمزور کرنے کی کوشش سمجھا جو 15 سال سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی خدمت کر رہا ہے۔ ناقدین، بشمول اسرائیلی اپوزیشن گروپس اور 2017 سے نیتن یاہو کے خلاف مظاہرہ کرنے والے، نے دلیل دی کہ مقدمہ جمہوری احتساب کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کی مداخلت کو اسرائیل کی خودمختاری میں دخل اندازی سمجھا، جو پہلے سے ہی منقسم سیاسی ماحول میں تناؤ کو بڑھا سکتی ہے۔
ایکس پر ردعمل ملے جلے تھے۔ صارف @guyelster نے ٹرمپ کے بیان کو "اسرائیل کے قانونی عمل میں غیر معمولی مداخلت” قرار دیا، جبکہ @FearlessWolfess نے سوال اٹھایا کہ "ٹرمپ ایک غیر ملکی لیڈر کے دفاع میں اتنا سرمایہ کیوں لگا رہے ہیں؟” دوسری طرف، ٹرمپ کے حامی اکاؤنٹس جیسے @PPR_Mile نے ان کی تعریف کی کہ انہوں نے مقدمے پر توجہ دلائی، جس سے مین سٹریم میڈیا پر دباؤ پڑا۔
بین الاقوامی طور پر، ٹرمپ کے ریمارکس کو ایک اتحادی جمہوریت کے عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو سفارتی خدشات کو جنم دیتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حمایت سے ان کی اندرونی مقبولیت بڑھ سکتی ہے لیکن اسرائیل میں تقسیم کو مزید گہرا کر سکتی ہے، جہاں مقدمے نے عدالتی اصلاحات پر بحث کو ہوا دی ہے۔
زوہران ممدانی کے موقف اور وسیع تر جیو پولیٹیکل تناظر سے تعلق
نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک میئرل پرائمری جیتنے والے ہندوستانی نژاد امریکی ڈیموکریٹک سوشلسٹ زوہران ممدانی نے اسرائیل، خاص طور پر نیتن یاہو کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ ممدانی، جو بائیکاٹ، ڈی ویسٹمنٹ، اور سینکشنز (BDS) تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو "نسل کشی” قرار دیتے ہیں، نے وعدہ کیا کہ اگر نیتن یاہو نیویارک کا دورہ کریں تو انہیں گرفتار کیا جائے گا، 2024 کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے۔ ٹرمپ کا ممدانی پر حملہ، انہیں "کمیونسٹ لناتیک” کہنا اور ان کی شکل و صورت اور ذہانت پر تنقید، ان کے اتحادیوں کے ناقدین کو نشانہ بنانے کے انداز کو ظاہر کرتا ہے۔
ہندوستان کا شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) دستاویز پر دستخط سے انکار، جو پاہلگام دہشت گرد حملے کو نظر انداز کرتی تھی اور بلوچستان کا ذکر کرتی تھی، وسیع تر جیو پولیٹیکل تناظر سے جڑتا ہے۔ پاکستان اور چین کی سرحد پار دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان کا موقف ایران کے خلاف اسرائیل کی حمایت سے ہم آہنگ ہے، حالانکہ ہندوستان ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ جیسے منصوبوں کے ذریعے اسٹریٹجک تعلقات برقرار رکھتا ہے۔
نتیجہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا بنجمن نیتن یاہو کے کرپشن مقدمے کو "جھوٹا تعاقب” قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا مطالبہ ایک جرات مندانہ اور متنازعہ مداخلت ہے جو دونوں لیڈروں کے درمیان گہرے ذاتی اور سیاسی تعلقات کو اجاگر کرتی ہے۔ مقدمے کو سیاسی طور پر محرک اور ایران تنازعے میں نیتن یاہو کی قیادت سے جوڑ کر، ٹرمپ اپنے اتحادی کی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں جبکہ اپنے قانونی چیلنجز کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ تاہم، یہ اقدام امریکہ-اسرائیل تعلقات کو کشیدہ کر سکتا ہے اور اسرائیلی سیاست کو مزید تقسیم کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے نیتن یاہو کا مقدمہ جاری ہے اور نیویارک میں ممدانی کا عروج توجہ حاصل کرتا ہے، امریکہ، اسرائیل، اور ہندوستان کی جیو پولیٹیکل حکمت عملیوں کا باہمی تعامل خطے کی حرکیات کو تشکیل دے گا، جس کے SCO، مشرق وسطیٰ، اور عالمی انسداد دہشت گردی کے لیے اثرات مرتب ہوں گے۔
المیہ:
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے کرپشن مقدمے کو "جھوٹا تعاقب” قرار دیتے ہوئے بے شرمی کی تمام حدیں پار کر دیں، ایک ایسے لیڈر کی حمایت کی جو رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے سنگین الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام، جس میں انہوں نے نیتن یاہو کو "عظیم جنگی لیڈر” کہہ کر مقدمہ ختم کرنے یا معافی دینے کا مطالبہ کیا، نہ صرف اسرائیل کے عدالتی نظام میں مداخلت ہے بلکہ ایک کرپٹ شخص کی پشت پناہی کر کے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کی واضح مثال ہے۔ یہ بیان ان کے اپنے قانونی مسائل کے دفاع سے مماثلت رکھتا ہے، جو ان کی اخلاقی گراوٹ اور اقتدار کے غلط استعمال کو ظاہر کرتا ہے۔
ہماری وٹس ایپ چینل میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے یہاں کلک کریں